بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا وہ صحابہ جو طبعی موت سے انتقال ہوئے ہیں قبروں میں حیات ہیں؟


سوال

جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی طبعی موت سے انتقال کیے ہیں کیا وہ اپنی قبر میں حیات ہیں ؟کیا حضرت ابو بکر صدیق رض اپنی قبر میں حیات ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ موت کے بعد برزخی حیات ہر شخص کو حاصل ہے البتہ اس برزخی حیات کے درجات ہیں۔ اس برزخی حیات کا اعلی درجہ انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہوتا ہے اس وجہ سے  زمین ان کے اجساد کو محفوظ رکھتی ہے اور اس حیات کے اثرات دنیا کے احکامات پر بھی ظاہر ہوتے ہیں حتی کے ان کی میراث تقسیم نہیں ہوتی اور ان کی ازواج دوسرے نکاح نہیں کرسکتیں۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد شہداء کا درجہ ہے اور اس وجہ سے روایات اور مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ زمین ان کے جسم کو نہیں کھاتی۔ اس کے بعد اولیاء اللہ اور صالحین کا درجہ ہے (یہ بات بھی بعض احادیث سے ثابت ہے) اور اس کے بعد عام مسلمانوں کا درجہ ہے لہذا وہ صحابہ جن کو طبعی موت آئی ہے ان کو بھی عام مردوں کے مقابلہ میں ایک ممتاز قسم کی برزخی حیات حاصل ہے۔ 

شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور  میں ہے:

" وأخرج الطبراني عن إبن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المؤذن المحتسب كالشهيد المتشحط في دمه وإذا مات لم يدود في قبره قال القرطبي وظاهر هذا أن المؤذن المحتسب لا تأكله الأرض أيضا.

 وأخرج عبد الرزاق في المصنف عن مجاهد قال المؤذنون أطول الناس أعناقا يوم القيامة ولا يدودون في قبورهم.

 وأخرج إبن منده عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا مات حامل القرآن أوحى الله إلى الأرض أن لا تأكلي لحمه فتقول الأرض أي رب كيف آكل لحمه وكلامك في جوفه . قال إبن منده وفي الباب عن أبي هريرة وعبد الله بن مسعود

وأخرج المروزي عن قتادة قال بلغني أن الأرض ‌لا ‌تسلط ‌على ‌جسد الذي لم يعمل خطيئة."

(باب نتن الميت وبلاء جسده إلا الأنبياء ومن ألحق بهم ص نمبر ۳۱۷،دار المدنی)

بیان القرآن میں ہے:

"ایسے مقتول کو شہید کہتے ہیں اور اس کی نسبت گو یہ کہنا وہ مرگیا ہے صحیح اور جائز ہے لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں کی سی موت سمجھنے کی ممانعت کی گئی ہے،  وجہ اس کی یہ ہے کہ بعد مرنے کے گو برزخی حیات ہر شخص کی روح کو حاصل ہے اور اسی سے جزا و سزا کا ادراک ہوتا ہے لیکن شہید کو اس حیات میں اور مردوں سے ایگ گونہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی یہ حیات آثار میں اوروں سے قوی ہے جس طرح انملہ یعنی سر انگشت۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا جسد باجود گوشت پوشت ہونے کہ خاک سے متاثر نہیں ہوتا  اور مثل جسد زندہ کے صحیح سالم رہتا ہے جیسا کہ احادیث اور مشاہدات شاہد ہیں ۔ پس اس امتیاز کی وجہ سے شہداء کو احیاء کہا گیا اور ان کود وسرے اموات کے برابر اموات کہنے کی ممانعت کی گئی اور یہی حیات ہے جس میں حضرات انبیاء علیہم السلام شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں حتی کہ بعد موت ظاہری کے سلامت جسد کے ساتھ ایک اثر اس حیات کا اس عالم کے احکام میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مثلا ازواج احیاء کے ان کے ازواج سے کسی کو نکاح جائز نہیں ہوتا اور ان کا مال میراث میں تقسیم نہیں ہوتا،  پس اس حیات میں سب سے قوی انبیاء علیہم السلام ہیں پھر شہداء پھر اور معمولی مردے البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اولیاء و صالحین بھی اس فضیلت میں شہداء کے شریک ہٰیں سو مجاہدہ نفس میں مرنے کو بھی معنی شہادت میں داخل سمجھیں گے  الخ۔"

سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر  ۱۵۴ ، ج نمبر ۱ ص نمبر  ۱۰۹، دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں