بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مفقود شخص وارث بن سکتاہے؟


سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا، والد صاحب کے والدین کا والد صاحب کی زندگی میں انتقال ہوا تھا، والد کی دو بیوہ تھیں ، ایک بیوہ سے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں، دوسری بیوہ سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، پہلی بیوہ کے بیٹوں میں سے ایک  بیٹا تقریبا 35 سال سے لاپتہ ہے، اب تک اس کی کوئی خبر نہیں اور لا پتہ ہونے کی وقت اس کی عمر 25 سال تھی، والد صاحب کے انتقال کی وقت دونوں بیویاں زندہ تھیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ :

1-والد صاحب کی میراث  ان کے ورثاء کے درمیان کیسے تقسیم ہوگی؟

2-جو بیٹا لاپتہ ہے کیا والد صاحب کی میراث  میں اس کا حصہ ہے؟

واضح رہے  کہ لا پتہ بھائی کا والدصاحب  کی وفات تک کوئی پتہ نہ چل سکاتھا، والد صاحب کی وفات کے بعد افغان حکومت نے اعلان کیا کہ اس سے پہلے جتنے لوگ لا پتہ ہیں(روسیوں کے ہاں قید ہیں)، وہ سارے قتل کیے جاچکے ہیں، اب ان کے آنے کی امید نہ رکھیں اور تھا بھی غیر شادی شدہ، جس وقت حکومت نے اعلان کیا تھا اس وقت اس کی والدہ بھی زندہ تھی ، اس بھائی کی میراث اگر تقسیم ہوگی تو مذکورہ بالا کن کن ورثاء کو ملے گا اور کتنا ملے گا؟

وضاحت: والد صاحب کی دونوں بیویوں کا انتقال ہوگیاہے، مذکورہ ورثاء کے علاوہ  کوئی وارث نہیں۔

جواب

واضح رہے کہ مفقود اس آدمی کو کہا جاتاہے جو اپنے اہل وعیال سے غائب ہوگیا ہو یا حربی کافروں نے اسے گرفتار کرکے لے گئے ہوں، پھر اس کے زندہ ہونے یانہ ہونے کی  کوئی خبر نہ ہو، تو ایسے آدمی  کو اپنی ذات کے حق میں زندہ تصور کیا جائے گا ، یعنی  اس  کی  بیوی کسی سے نکاح نہیں کرسکتی اور اس کی میراث ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں ہوگی، لیکن حق غیر میں اس کو مردہ تصور کیا جائے گا، یعنی  جو شخص اس کے مورثوں میں سے انتقال کرے ،تو اس مفقود کا اس کی میراث میں حق نہیں ہوگا، البتہ لاپتہ شخص کو میت اس وقت تصور کیا جائے گا، جب اس کی موت کی خبر آجائے یااس کے ہمجولی(ہم عمر) لوگوں کا انتقال ہوجائے، لیکن  اگر اس کی موت یازندہ ہونے کی خبر نہ آجائے تو ایسی صورت میں میراث میں اس کا جو حصہ ہو گا ، اس حصہ کو ساٹھ(60) سال تک  محفوظ کیا جائے گا، پھر ساٹھ سال گزرنے کے بعد ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا۔

صورت مسئولہ میں چوں کہ سائل کا مذکورہ بھائی  والد کی وفات تک لاپتہ تھا اور والد کے انتقال کے   بعد حکومت نے اس کی موت کا  اعلان بھی کیا تھا، تو اس لیے مذکورہ بھائی(لاپتہ بیٹا) کا والد صاحب کی میراث میں کوئی حصہ نہیں، بلکہ میراث  چھ بیٹے اور نو بیٹیوں کے درمیان ان کے شرعی حصے کے تناسب سے تقسیم ہوگی۔

تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم میت(سائل والد)کے  میت کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کی اخراجات نکالنے کے بعد، اگر مرحوم  کے ذمہ کوئی   قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اور  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو  باقی ترکہ کے  ایک تہائی میں  اسے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ  کے  21  حصے کرکے  دو حصے  ہر ایک بیٹے کو اور ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:مرحوم  سائل کا والد، مسئلہ:21

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
222222111111111

یعنی مثلا 100 روپے میں سے 9.523  روپے میت کے ہر ایک بیٹے کو اور 4.761 روپے  ان کی ہر ایک بیٹی ملیں گے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"هو الذي غاب عن أهله أو بلده أو اسره العدو ولا يدرى أحي هو أو ميت، ولايعلم له مكان ومضى علي ذلك زمان، فهو معدوم بهذا الاعتبار، وحكمه: أنه حي في حق نفسه لا تتزوج امرأته، ولا يقسم ماله، ولا تفسخ اجارته، وهو ميت في حق غيره لايرث ممن مات حال غيبته كذا في خزانة المفتين."

[كتاب المفقود، ج:2، ص: 299، ط:المكتبة  الماجدية]

فتح القدیر میں ہے:

"قال المصنف (والأرفق) أي بالناس (أن يقدر بتسعين) وأرفق منه التقدير بستين. ‌وعندي ‌الأحسن ‌سبعون لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا، وقال بعضهم: يفوض إلى رأي القاضي، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي."

[كتاب المفقود، ج:6، ص: 149، ط:دار الفكر بيروت]

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا حكم بموته اعتدت امرأته عدة الوفاة من ذلك الوقت، وقسم ماله بين ورثته الموجودين في ذلك الوقت."

[كتاب المفقود، ج:2، ص:300،ط:المكتبة الماجدية]

سراجی میں ہے:

"الثالثة اتحاد جهتهم  مع استواء درجتهم وتفاوتهم في القوة  كان يكون بعضهم لابوين وبعضهم لاب،والتقديم حينئذ بالقوة ،فالاخ لابوين يقدم على الاخ للاب."

(باب العصبات،بحث العصبة بنفسه،ص:14،ط:قديمي )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100979

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں