بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا وقت بھی نفع میں شامل ہے؟


سوال

کہاگیا ہے کہ وہ قرض جو نفع کھینچے سود ہے ،  لیکن جو ٹائم کا نفع لیا جاتا ہے،  کیایہ صحیح ہے،مثلاًمیں نے قرضہ لیا کل واپس کروں گا تو یہ جوکل تک ٹائم لیا گیا،  یہ   نفع میں شامل نہیں ہے ؟

جواب

کسی کو قرض دے کر   اس قرض کے عوض زائد رقم لینا یا قرض کی بنیاد پر مقروض سے کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھانایہ شرعًا سود  میں شامل ہے اور حرام ہے۔ البتہ کسی سے قرض لے کر کچھ عرصہ بعد واپس کرنا اس مدت میں مقروض اس قرض سے جو فائدہ حاصل کرتا ہے، یہ  سود نہیں، بلکہ اپنی ضرورت وحاجت کو پورا کرنا ہے ،نیز یہاں مقروض بذاتِ  خود اس رقم سے فائدہ اٹھاتا ہے اور قرض کی واپسی کے لیے کچھ وقت مقرر کرتاہے، اس صورت میں قرض خواہ کو کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں ہورہا  اور  نہ  ہی قرض خواہ  اس وقت کے بدلہ میں مقروض سے کوئی منفعت حاصل کرتا ہے؛  اس لیے قرض لے کر مقررہ وقت پر اتنی ہی رقم واپس کرنا جائز ہے،اور دائن و مدیون کے حق میں اس صورت میں  سود کا کوئی پہلو موجود نہیں ۔ البتہ اگر قرض خواہ مقروض سے اس مدت کے بدلہ میں کوئی فائدہ حاصل کرے تو وہ شرعًا  سود  ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (16 / 252):

"وَ لَايَجُوزُ قَرْضٌ جَرَّ نَفْعًا بِأَنْ أَقْرَضَهُ دَرَاهِمَ مُكَسَّرَةً بِشَرْطِ رَدِّ صَحِيحَةٍ أَوْ أَقْرَضَهُ طَعَامًا فِي مَكَان بِشَرْطِ رَدِّهِ فِي مَكَان آخَرَ."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (5 / 166):

"و في الخلاصة: القرض بالشرط حرام و الشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه. و في الأشباه: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى الموهونة بإذن الراهن."

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (16 / 223):

"لِأَنَّ الْأَجَلَ لَا يُقَابِلُهُ شَيْءٌ مِنْ الثَّمَنِ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ."

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (11 / 101):

"قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ: (فَإِنْ أَتْلَفَ فَعَلِمَ لَزِمَ بِأَلْفٍ وَ مِائَةٍ) أَيْ إذَا أَتْلَفَ الْمُشْتَرِي الْمَبِيعَ فِي هَذِهِ الصُّورَةِ ثُمَّ عَلِمَ أَنَّ الثَّمَنَ كَانَ مُؤَجَّلًا لَزِمَهُ أَلْفٌ وَمِائَةٌ ؛ لِأَنَّ الْأَجَلَ لَيْسَ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ فَلَا يُقَابِلُهُ شَيْءٌ مِنْ الثَّمَنِ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں