ہمارے علاقے میں ایک مسجد ہے جو کہ آج سے 30 یا 32 سال قبل پلاٹ کی صورت میں ایک قاری صاحب کے حوالے کی گئی تھی، اور وہ قاری صاحب بغیر کسی تنخواہ کے اس مسجد میں خدمات انجام دیتے رہے، یہاں تک کہ گذشتہ 2 سال میں اس قاری صاحب نے اپنے ذاتی تعلقات اور کچھ محلے والوں کے تعاون سے اس مسجد کی پکی تعمیر کردی۔ جس حاجی صاحب نے یہ جگہ مسجد کےلیے وقف کرکے قاری صاحب کے حوالے کی تھی ان کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہو گیا ہے۔ اب ان کے بیٹے مسجد کی ملکیت کے دعوے دار ہیں اور جب ان کا جی چاہے مسجد کو تالا لگا کر مسجد کو بند کر دیتے ہیں، خواہ جماعت کی نماز کا وقت نکل جائے، مگر ان کی مرضی کے بغیر تالا نہیں کھلتا۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس مسجد کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اس مسجد میں جمعہ اور دوسری نمازوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا ایسی مسجد میں نمازوں کی ادائیگی درست ہے یا نہیں؟ نیز ایسی مسجد کے ساتھ تعاون کا شرعًا کیا حکم ہے ؟
واضح رہے کہ وقف کرنے سے وقف کردہ چیز واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں آجاتی ہے، بعد ازاں واقف یا اس کے ورثاء کو وقف باطل کرکے اپنی ملکیت میں لینے کا اختیار نہیں رہتا، اور نہ ہی انہیں اس میں مالکانہ تصرفات کاحق رہتا ہے ۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب واقف نے مذکورہ پلاٹ وقف کرکے قاری صاحب کے حوالے کردیا تھا، اور انہیں اس وقف کا متولی بھی بنادیا تھا، جس پر وہ ایک عرصہ تک بغیر کسی معاوضہ کے اس وقف شدہ مسجد کی خدمات بھی انجام دیتے رہے اور اس کی تعمیرات بھی کرواچکے، تو اب واقف کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کا اس مسجد پر ملکیت کا دعویٰ کرنا ہرگز درست نہیں ہے، اور مذکورہ قاری صاحب ہی اس مسجد کی تولیت کے حق دار ہیں، چناں چہ مرحوم واقف کا مقرر کردہ متولی جب اپنی ذمّہ داری درست طریقے سے سرانجام دے رہا ہے،اور ان سے کوئی خیانت بھی ظاہر نہ ہوئی ہو اور وہ اپنے کام سے عاجز بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں اسے معزول کرکے واقف کے بیٹے کا اس مسجد کی تولیت اپنے ذمّہ لینا یا مذکورہ قاری صاحب کی جگہ کسی اور کو اس کامتولی بنانا جائز نہیں ہے، لہٰذ اتاقیامت یہ جگہ مسجد شرعی ہی رہے گی، کسی کو اس میں ذاتی مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ واقف کے بیٹوں کامسجد کو تالا لگانےاور نمازوں سے روکنے کا عمل غلط، خلافِ شرع و ناجائز ہے، اور اس وعید کا مستحق ہے:
"وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعى فِي خَرابِها أُولئِكَ مَا كانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوها إِلَاّ خائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذابٌ عَظِيمٌ."[سورة البقرة، آية: 114]
ترجمہ:”اور اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہوگا جو خدا تعالیٰ کی مسجدوں میں ان کا ذکر ( اور عبادت) کیے جانے سے بندش کرے، اور ان کے ویران (ومعطل) ہونے (کے بارے) میں کوشش کرے۔ ان لوگوں کو تو کبھی بےہیبت ہوکر ان میں قدم بھی نہ رکھنا چاہیے تھا، (بلکہ جب جاتے ہیبت اور ادب سے جاتے) ان لوگوں کو دنیا میں بھی رسوائی (نصیب) ہوگی اور ان کو آخرت میں بھی سزائے عظیم ہوگی ۔“ (از بیان القرآن)
لہٰذا انہیں چاہیے کہ ایسا کرنے سے اجتناب کریں۔
جب یہ جگہ مسجد کےلیے وقف ہے اور مسجد ہی کے حکم میں داخل ہے تو اس میں جمعہ، عیدین اور دیگر تمام نمازیں پڑھنا جائز ہے، اور اس مسجد کے ساتھ تعاون بھی درست ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما."
(کتاب الوقف،الباب الأول، ج:2، ص:350،ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
وفيه أيضاً:
"وأما حكمه فعندهما زوال العين عن ملكه إلى الله تعالى وعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - حكمه صيرورة العين محبوسة على ملكه بحيث لا تقبل النقل عن ملك إلى ملك والتصدق بالغلة المعدومة متى صح الوقف بأن قال: جعلت أرضي هذه صدقة موقوفة مؤبدة أو أوصيت بها بعد موتي فإنه يصح حتى لا يملك بيعه ولا يورث عنه لكن ينظر إن خرج من الثلث والوقف فيه بقدر الثلث كذا في محيط السرخسي."
(کتاب الوقف،الباب الأول، ج:2، ص:352،ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"مطلب ولاية نصب القيم إلى الواقف ثم لوصيه ثم للقاضي (قوله: ولاية نصب القيم إلى الواقف) قال في البحر قدمنا أن الولاية للواقف ثابتة مدة حياته وإن لم يشترطها وأن له عزل المتولي، وأن من ولاه لا يكون له النظر بعد موته أي موت الواقف إلا بالشرط على قول أبي يوسف."
(کتاب الوقف، ج:4، ص:421، ط:ایج ایم سعید)
وفيه أيضاً:
"(جعل) الواقف (الولاية لنفسه جاز) بالإجماع، وكذا لو لم يشترط لأحد فالولاية له عند الثاني. وهو ظاهر المذهب نهر، خلافا لما نقله المصنف، ثم لوصيه إن كان وإلا فللحاكم فتاوى ابن نجيم وقارئ الهداية وسيجيء،(وينزع) وجوبا بزازية (لو) الواقف.....(غير مأمون) أو عاجزا أو ظهر به فسق كشرب خمر ونحوه فتح .(وإن شرط عدم نزعه) أو أن لا ينزعه قاض ولا سلطان لمخالفته لحكم الشرع فيبطل كالوصي ،فلو مأمونا لم تصح تولية غيره أشباه.
وفي الرد: مطلب في عزل الناظر (قوله: فلو مأمونا لم تصح تولية غيره) قال في شرح الملتقى إلى الأشباه لا يجوز للقاضي عزل الناظر المشروط له النظر بلا خيانة، ولو عزله لا يصير الثاني متوليا، ويصح عزل الناظر بلا خيانة لو منصوب القاضي أي لا الواقف وليس للقاضي الثاني أن يعيده وإن عزله الأول بلا سبب لحمل أمره على السداد إلا أن تثبت أهليته اه.وأما الواقف فله عزل الناظر مطلقا به يفتي."
(کتاب الوقف، ج:4، ص:379، ط:ايج ايم سعید)
وفيه أيضاً:
"مطلب ولاية نصب القيم إلى الواقف ثم لوصيه ثم للقاضي (قوله: ولاية نصب القيم إلى الواقف) قال في البحر قدمنا أن الولاية للواقف ثابتة مدة حياته وإن لم يشترطها وأن له عزل المتولي، وأن من ولاه لا يكون له النظر بعد موته أي موت الواقف إلا بالشرط على قول أبي يوسف."
(کتاب الوقف، ج:4، ص:421، ط:ایج ایم سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102200
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن