کیا عشر ،فطرانہ اور زکاۃ کی رقم کو ایک ہی اکاؤنٹ میں رکھا جا سکتا ہے اور اس سب رقم کو ملا کر کسی غریب کی مدد کی جائے تو یہ صحیح ہو گا؟
عشر، فطرانہ اور زکاۃ کا مصرف ایک ہی ہے اور وہ مصارف سات ہیں: فقیر، مسکین، عامل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔
’’فقیر‘‘ وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب (صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کو پہنچ جائے۔
’’مسکین‘‘ وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔
’’عامل‘‘ وہ ہے جسے اسلامی حکومت کے حاکم نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
’’رِقاب‘‘ سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا۔
’’غارم‘‘ سے مراد مدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ قرض نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔
’’فی سبیل اللہ‘‘ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں، مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں۔
’’ابن السبیل‘‘ سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ کی رقم دی جا سکتی ہے، اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو، لیکن اس سے استفادہ کی کوئی صورت (مثلاً آن لائن ٹرانسفر وغیرہ کے ذریعے) ممکن نہ ہو۔
لہذا عشر، صدقۃ الفطر اور زکاۃ کی رقم کو ایک اکاؤنٹ میں رکھ کر مذکورہ مصارف میں سے کسی مصرف پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 193):
"أن العشر مصرفه مصرف الزكاة لأنه زكاة الخارج". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144109202043
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن