بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت مسلمانوں کے حقوق کی خاطر لڑنےکے لیے وکیل بن سکتی ہے ؟


سوال

کیا عورت کے لیے وکیل بننا جائز ہے ؟جب کے وہ اس کے ذریعے مسلمانوں کی طرف سے اور ان کے حقوق کے لیے لڑنا چاہتی ہو۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ  میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے اور شرعی ضرورت کےبغیر  اس کے لیے گھر سے نکلنے کوسخت ناپسند کیا گیاہے،حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنمازکے معاملہ میں بھی یہ  پسند فرمایاہے کہ عورتیں اپنے گھر وں میں ہی نمازپڑھیں  اور اسی کی ترغیب دی ہے، نیز کمانے کی غر ض سے بھی عورت کا گھر سے نکلنا ممنوع قراردیا گیاہے،اور اس کا نفقہ  اس کے والدیاشوہر یا اولاد  پر لازم کیا ہے ؛تاکہ گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش نہ آئے، شادی سے پہلے  اس کا نفقہ اس کے والد کے ذمہ ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر کے ذمہ لازم کیا ہےاور اگر شوہر ضعیف ہو اور اولاد جوان ہو تو اولاد کے ذمہ لازم کیا ہے،لہذا کمانے کے لیے بھی عورت کا اپنے گھر سے نکلنے جائزنہیں ہے۔

البتہ اگر کسی عورت کوشدید مجبوری ہو  اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو تو ایسی صورت میں عورت کے گھر سے نکلنے کی گنجائش ہوگی ،لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پر دے کے ساتھ گھر سے نکلے،کسی نامحرم سےبات چیت نہ ہو، ایسی ملازمت اختیار نہ کرےجس میں کسی غیر محرم کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون  کو نان نفقہ کی  پریشانی نہیں ہے   تو اس کے لیے وکالت بلکہ کسی بھی قسم کی ملازمت اختیار کرنا جائز نہیں ہے ، اور اگر شدید مجبوری ہو ، کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو اور نان نفقہ کا کوئی  انتظام  نہ ہو   تو مذکورہ شرائط کی رعایت کے ساتھ بقدرِضرورت جائز  ملازمت کی  گنجائش ہوگی جبکہ وکالت کی تعلیم شرعی پردہ کے ساتھ مشکل کام ہے، دوم یہ کہ شرعی پردہ کے ساتھ وکالت کا پیشہ نہیں اپنایا جاسکتا، اس لئے جائز نہیں۔

نیز  آپ کے سوال کی نوعیت  بھی غیرواضح ہے کہ عورت جو مسلمانوں کے حقوق کے لئے لڑنا چاہتی ہے تو  مسلمانوں کےحقو ق سے آپ کی مراد کیا ہے؟مسلمانوں کے حقوق کے لیے مختلف تنظیمیں بنی ہوئی ہیں ،  عدالتیں لگی ہوئی ہیں،مرد وکلاء بھی بہت ہیں اور بھی مختلف جہتوں سے لوگ مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کررہے ہیں،اور کوئی خاتون بھی شرعی حدود میں رہ کر خواتین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے حقوق کی فکر اور کام کرسکتی ہیں، لیکن اس کے لئے وکیل بن کر وکالت کا پیشہ اپنانا ضروری نہیں۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «‌المرأة ‌عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان»" .

(سنن الترمذی،ج:۲ ،ص:۴۶۷ ،رقم الحدیث:۱۱۷۳،ط:دارالغرب الاسلامی)

بدائع الصنائع میں ہے:

 "(وأمّا) النوع السادس وهو ‌الأجنبيّاتُ الحرائرُ فلا يحلّ النظرُ للأجنبيّ من الأجنبية الحرّة إلى سائر بدنها إلاّ الوجه والكفين؛ لقوله تبارك وتعالى: {قل للمؤمنين يغضّوا من أبصارهم} [النور: 30] إلاّ أنّ النظرَ إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفّان رُخِّص بقوله تعالى: {ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها} [النور: 31]، والمراد من الزينة مواضعها ومواضع الزينة الظاهرة الوجه والكفّان".

(بدائع الصنائع،کتاب الاستحسان،ج:۵،ص:۱۲۱،ط:سعید)

الفتاوی الہندیۃ میں ہے:

"وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهنّ في عمل أو خدمة كذا في الخلاصة..... ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوّجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة".

(الفتاوی الہندیۃ،کتاب الطلاق، الباب السابع عشر،الفصل الرابع ،ج:۱،ص:۵۶۲۔۵۶۳ ،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں