بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا امم سابقہ کی نمازوں میں رکوع تھا؟


سوال

سورۃ بقرۃ کی ایت نمبر 43 ( وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوامَعَ الرَّاكِعِينَ ) کے ذیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمه اللہ تعالی رحمة واسعة فرماتے ہیں کہ یہود کی نماز میں سجدہ وغیرہ تو تھا، مگر رکوع نہیں تھا، رکوع اسلامی نماز کی خصوصیات میں سے ہے (معارف القران ج۱ ص ۲۱۵) حالانکہ سورۃ اٰل عمران کی ایت نمبر 43 ) يَامَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (میں مریم علیھا السلام کو یہود کی قوم سے ہونے کے باوجود رکوع کا حکم دیا جا رہا ہے۔ برائے مہربانی با حوالہ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

سیرت حلبیہ میں من جملہ دیگر خصوصیت کے رکوع کو امت محمدیہ کی خصوصیت بیان کیا گیا ہے۔ اس پر سورہ آل عمران ہی کی مذکورہ آیت کے بارے میں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس رکوع سے مراد وہ رکوع نہیں جو ایک خاص ہئیت کے ساتھ اہل اسلام کی نمازوں کا حصہ ہے، بلکہ اس رکوع سے مراد اس کے لغوی معنی یعنی تواضع اور عاجزی اختیار کرنے کے ہیں۔لیکن اس پر بطور اشکال امام بغوی کی وہ تفصیل ذکر کی گئی ہے کہ جس میں امام بغوی نے سورہ آل عمران میں رکوع کے سجدے سے پہلے ذکر ہونے کی تاویل کر کے رکوع کو پچھلی امتوں کی نماز کا حصہ قرار دیا ہے۔ زاد المسیر میں ابن جوزی نے سورہ بقرہ کی مذکورہ آیت کے تحت یہ قول کہ رکوع امت محمدیہ کی خاصیت ہے قیل کے عنوان سے ذکر کیا ہے، جو اس قول کے ضعف کی طرف اشارہ ہے۔ فقہ شافعی کی مشہور کتاب نہایۃ المحتاج کے محشی امام شبراملسی کی تحقیق کے مطابق رکوع کی خصوصیت کا قول درست نہیں۔ سورہ آل عمران کی مذکورہ آیت کی روشنی میں امام شبراملسی کی تحقیق ہی قرین قیاس ہے۔ فقط


فتوی نمبر : 143511200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں