بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تین طلاق کے بعد میاں بیوی ایک گھر میں رہ سکتے ہیں؟


سوال

کیا طلاق کے بعد میاں بیوی اس طریقے سے ایک گھر میں رہ سکتے ہیں کہ چار دیواری میں دو الگ الگ مکان ہیں ایک آگے اور ایک پیچھے، بیوی پچھلے مکان میں رہے اور میاں اگلے میں، اور پردے کے تمام تقاضے بھی پورے کرتے ہوں اس طرح رہنا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کیا پھر عورت اپنی اولاد کے واسطے سے شوہر کے کام کر سکتی ہے؟ مثلا کھانا بنانا کپڑے دھونا یعنی کھانا و کپڑے عورت تیار کرے اور بچے باپ تک پہنچاتے رہیں۔اگر یہ صورت نہیں جائز تو کیا عورت اسی سابقہ شوہر کے گھر بطور ملازمہ شوہر کے یہ کام کر سکتی ہے کہ نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں تین طلاق کے بعداگر دونوں میاں بیوی مذکورہ چار دیواری میں بنے الگ الگ مکان میں اپنی جوان اولاد کے ساتھ پردہ کا خیال کرتے ہوئے  اجنبیوں کی طرح اس طرح رہ  سکتے ہوں کہ دونوں کا آمنا سامنا نہ ہو، اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مذکورہ طریقہ سے دونوں الگ الگ  مکان میں  اپنی جوان اولاد کے ساتھ رہ سکتے ہیں،اور اگر مطلقہ اپنے سابقہ شوہر کے کام کاج کرتی رہے تو یہ اس کی طرف سے احسان ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.

(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."

(كتاب الطلاق، باب  العدۃ، فصل في الحداد، 3 /538، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311100033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں