بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا طلاق،طلاق،طلاق، کہنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ؟


سوال

ہمارے گھر  میں  بہت زیادہ مسئلے ہوگئے ، اکثر جھگڑے ہوا کرتے تھے ، اتوار والے دن کچھ ایسا ہو ا  کہ ہم ناشتہ کر رہے تھے ،ناشتہ کرکے  ہٹے تو ہم کسی ایک بات پر لڑنے لگے اور پھر میرے شوہر نے غصے میں کہا کہ تو چاہتی کیا ہے ؟ اور ایک ہی سانس میں  تین  طلاق دے دی ،تین بار  : "طلاق، طلاق ،طلاق " کہا ، اس کمرے میں ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا ،اوپر سے  بھابھی دیکھ رہی تھی اور اس کو بولا کہ میں نےطلاق دے دی ہیں ،اوپر اس کی بہن بھی تھی، یہی کہہ رہی تھی کہ میں نے سناہے ، اس وقت میر ے شوہر بہت غصے میں تھے ،طلاق دینے کے بعد وہ لمبا لیٹ گئے،اب  میرے شوہر مجھے دوبارہ اپنانا چاہتے ہیں ،بہت سے مولویوں سے پوچھا ہے ،کچھ کہہ رہے ہیں کہ ہوگئی ہےاور کچھ کہہ رہے ہیں  کہ نہیں ہوئی ، اب آپ  بتائیں کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے ؟اس بات کو ایک مہینہ ہوگیا ہے ،دوبارہ ملنا چاہتے  ہیں  ،حلالہ کے بغیر ہم دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ؟ہم بہت پریشان ہیں ،ہماری بیٹی بھی ہے ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگرواقعۃً سائلہ کے شوہر نے  اسےیہ کہا کہ  ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ تو اس سے    سائلہ   پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اور وہ   اپنے شوہر پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے ، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے، اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے، اور مطلقہ اپنی عدت (پوری تین  ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو توبچہ کے پیدائش تک  ) گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ   نکاح   کر سکتی ہے، البتہ اگر مطلقہ عدت گزارنے کے بعد کسی  دوسری جگہ   نکاح کرے، اور اس دوسرے  شوہر کے ساتھ  صحبت (جسمانی تعلق)  بھی  قائم ہوجائے اس کے بعد وہ اس کو طلاق دے یا اس کا  انتقال ہو جائے، تو  اس کی عدت گزارنے کے بعد  سائلہ ک ااپنے سابقی شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق."

(کتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الأول في الطلاق الصریح،ج:1، ص:356، ط:مصر)

بدائع  الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية ... سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(کتاب الطلاق، فصل في حکم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 187، ط:دار الکتب العلمیة)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"الصريح ‌يلحق ‌الصريح."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات، ج:3، ص:306، ط:سعید)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144311100448

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں