بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا طلبہ کو سزا دینا حدیث سے ثابت ہے؟


سوال

ایک آدمی نے مجھے کہا ہے  کہ: طلبہ کو سزا دیناحدیث سے ثابت ہے ، اس کا حوالہ چاہیے اور شرعی سزاکیا ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معلم اور مربی کے راہ نما اصول اور قواعد بیان کیے ہیں،  حضرت معاویہ بن حکم سلمی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے (حالت نماز میں) "یرحمک اللہ " کہا، اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے (اپنے دل میں) کہا: تمہاری مائیں تمہیں گم کریں، تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر لوگ  اپنے ہاتھوں سے رانوں کو تھپکی دینے لگے تو میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش رہنے کے لیے کہہ رہے ہیں، جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، میرے ماں باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف اتنا فرمایا: "نماز میں اس طرح بات چیت درست نہیں، یہ تو بس تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے" ، حضرت انس رضی اللہ عنہ کم سنی کے زمانے سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت  میں اور زیرِ تربیت تھے، وہ فرماتے ہیں کہ:"میں نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دس سال خدمت کی،آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا،اورجوکام میں نے کیا ٗ اس کی بابت یہ نہیں کہاکہ تم نے یہ کیوں کیا؟ اورجوکام میں نے نہیں کیا ، اس کی بابت یہ نہیں کہاکہ تم نے اس طرح کام کیوں نہیں کیا؟"۔

لہذا  ایک معلم اور مربی کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلبہ اور زیر ِتربیت افراد کے ساتھ حسن سلوک اور بہترین طریقے سے پیش آئے، ان سے اپنی حقیقی اولاد کی طرح پیش آئے ، لیکن تعلیم اور تربیت  کے اس مشکل عمل میں کبھی کبھار بچوں کی جانب سے غلطیاں سامنے آتی ہیں اور بار بار سمجھانے پر بھی باز نہیں آتے، اس وقت اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ بچوں کو ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر مناسب تنبیہ کی جائے، تربیت کے موقع پر تنبیہ کرنا اورزیر ِتربیت بچوں کو راہ راست پر بر قرار رکھنے کے لیے  مناسب تنبیہ ضروری  ہے اور  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ: "اپنی اولاد کو ادب کے لیے مارنے سے بھی گریز نہ کرو اور ان کے دل میں اللہ کا خوف پیداکرو "۔

فقہاء کرام رحمہم اللہ نے تنبیہ اور سزاکے کئی مراحل ذکر کیے ہیں کہ اگر طالب علم کی عمر دس سال سے کم ہے تو سب سے پہلےاسے   سمجھایا جائے، اس پر بھی اصلاح نہ ہو تو  اسے ڈرایا جائے، اس پر بھی کوتاہی دور نہ ہو تو  اسے مناسب انداز میں دوسرے بچوں کی تعلیمی سبقت بیان کرے، ہمت اور حوصلہ کے ساتھ ترغیب دے دیں، جب دس سال کا ہوجائے تو والد کی اجازت سے  اسے ہاتھ سے تین تھپڑ لگانے کی اجازت ہوگی، اس صورت میں بھی والدین و اساتذہ کو چاہیے کہ تھپڑ مارنے کے بجائے ایسی سزا تجویز کریں  جو  بچہ کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے مفید ہو، اس وجہ سے انہوں نےزیرِ تربیت بچوں کےلیے کچھ شرائط بیان کی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔   بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

2۔  سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

3۔ ایسی سزا شرعاً ممنوع نہ ہو۔

4۔ غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دے۔

5۔ بچوں کی طبیعت اس کی متحمل ہو، یعنی بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہ مارے۔

6۔  مدرسہ کے ضابطہ کی رو سے اساتذہ کو اس طرح کی تادیب کی اجازت ہو۔

7۔ ہاتھ سے مارے، لاٹھی ، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ مارے، اگر بالغ ہو تو بقدر ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتا ہے  بشرط یہ کہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

8۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ مرتبہ نہ مارے، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں مرتبہ  مارے، بلکہ تین مرتبہ  متفرق جگہوں پر مارے۔

9۔  سر، چہرے اور شرم گاہ پر نہ مارے۔

10۔     بچہ تادیب کے قابل ہو، اتنا چھوٹا بچہ جو تادیب کے قابل نہ ہو اس کو مارناجائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر بار بار متنبہ کرنے کے باوجود طلبہ غلطی کریں اور سمجھانے پر بھی اپنی غلطی کی اصلاح نہ کریں تو انہیں مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ سزا دینے کی شرعا گنجائش ہے، احادیثِ مبارکہ میں صراحۃ اس امر کی وضاحت نہیں ، لیکن کئی احادیث مبارکہ کے مضمون سے اس کی تائید ہوتی ہے، جن میں سے چند ایک اوپر بیان کی جا چکی ہیں۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب، عن أبيهعن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مروا أولاكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر، ‌وفرقوا ‌بينهم ‌في ‌المضاجع."

[كتاب الصلاة،‌‌ باب متى يؤمر الغلام بالصلاة، ج:1،ص133، ط: المكتبة العصرية.]

مسند احمد میں ہے:

"عن معاوية السلمي، قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم قال: ‌فعطس ‌رجل من القوم، فقلت: يرحمك الله، فرماني القوم بأبصارهم، فقلت: واثكل أمياه، ما شأنكم تنظرون إلي؟ قال: فجعلوا يضربون بأيديهم على أفخاذهم، فعرفت أنهم يصمتوني، لكني سكت، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة بأبي هو وأمي، ما شتمني ولا كهرني ولا ضربني، فقال: " إن هذه الصلاة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس هذا، إنما هي التسبيح والتكبير وقراءة القرآن."

[مسند أحمد، حدیث معاویۃ بن الحکم السلمی، ج:39، ص:184، ط: مؤسسة الرسالة.]

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: ‌خدمت ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم عشر سنين، والله ما قال لي: أفا قط، ولا قال لي لشيء: لم فعلت كذا؟ وهلا فعلت كذا؟."

[كتاب الفضائل، باب كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أحسن الناس خلقا، ج:4، ص:1804، ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت.]

المعجم الاوسط للطبرانی میں ہے:

"عن معاذ بن جبل قال: أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: يا رسول الله علمني عملا إذا أنا عملته دخلت الجنة قال: «لا تشرك بالله شيئا، وإن عذبت وحرقت أطع والديك، وإن أخرجاك من مالك، ومن كل شيء هو لك،... أنفق من طولك على أهلك، ولا ترفع عنهم عصاك، ‌أخفهم ‌في ‌الله»."

[ باب الميم،‌‌ من بقية من أول اسمه ميم من اسمه موسى، ج:8، ص:58، ط: دارالحرمين، القاهرة.]

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"طرق تأديب الصبي:

٩- يؤدب الصبي بالأمر بأداء الفرائض والنهي عن المنكرات بالقول، ثم الوعيد، ثم التعنيف، ثم الضرب، إن لم تجد الطرق المذكورة قبله، ولا يضرب الصبي لترك الصلاة إلا إذا بلغ عشر سنين. لحديث: مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع.

ولا يجاوز ثلاثا عند الحنفية والمالكية والحنابلة."

(حرف التاء، تأديب،ج:10،ص:24، ط: دارالسلاسل - الكويت)

وفيه أيضا:

" للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب. وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

أ - أن يكون الضرب معتاداً للتعليم كمًّا وكيفاً ومحلاً، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجاوز الثلاث،  روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.

ب - أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لايثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصاً. ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي.

ج - أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لايعقل التأديب من الصبيان، قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيراً لا يعقل فلا يضربه."

(ج:13، ص:13، تعلیم وتعلم ، الضرب للتعلیم، ط: دارالسلاسل، کویت) 

فتاوی شامی میں ہے:

"أما المعلم فله ضربه؛ لأن المأمور يضربه نيابةً عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لا يزيد على ثلاث ضربات، ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل، وأقره الشارح، قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولا يزيد على ثلاث ضربات."

[كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6،ص:430، ط:سعيد]

2۔آپ کے سوال کا دوسرا حصہ قابل وضاحت ہے، شرعی سزا سے کیا مراد ہے؟  واضح کرکے دوبارہ سوال کریں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100862

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں