بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تجدید نکاح کے موقع پر خطبہ پڑھنا ممنوع ہے؟


سوال

کیا تجدیدِ نکاح میں خطبہ ممنوع ہے؟ ایک عالم فرما رہے تھے کہ خطبہ جدید نکاح میں درست نہیں۔ برائے کرم وضاحت فرمادیں! اور برائے نام اگر ایجاب وقبول کر لیا جائے جیسے جدید نکاح میں ہوتا ہے؟ کیا یہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح کی مجلس میں خطبہ پڑھنا مستحب ہے، خواہ نکاح ابتداءً  کیا جا رہا ہو یا جدائی کے بعد تجدیداً، اور چوں کہ خطبہ باری تعالیٰ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویہ پر مشتمل ہوتا ہے؛ اس لیے اس کا پڑھنا خیر و برکت ہی کا باعث ہے۔ ہاں! اگر کوئی شخص نکاح کے موقع پر خطبہ نہیں پڑھتا تو بھی  نکاح درست ہو جائے گا، البتہ خطبۂ مسنونہ رہ جائے گا۔

تجدیدِ نکاح کی مجلس میں اس خطبہ کے پڑھنے کو ممنوع قرار دینا درست نہیں، ممکن ہے مذکورہ عالم صاحب نے تجدیدِ نکاح میں خطبہ ضروری ہونے کی نفی کی ہو، یا احتیاطی تجدیدِ نکاح میں خطبہ نہ پڑھنے کا مشورہ دیا ہو، یعنی ایک تو وہ تجدیدِ نکاح ہے جو یقینی طور پر بیوی کے جدا ہوجانے کے بعد ہو، اور ایک صورت تجدید کی وہ ہے جو فقہاءِ کرام نے عوام الناس کے لیے لکھی ہے کہ احتیاطًا کچھ عرصے بعد عام آدمی کو تجدید کرلینی چاہیے، بظاہر موصوف کا مقصد یہی صورت ہوگی کہ  ہر بار خطبہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 8):

"ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول.

(قوله: وتقديم خطبة) بضم الخاء ما يذكر قبل إجراء العقد من الحمد والتشهد، وأما بكسرها فهي طلب التزوج وأطلق الخطبة فأفاد أنها لا تتعين بألفاظ مخصوصة، وإن خطب بما ورد فهو أحسن، ومنه ما ذكره ط عن صاحب الحصن الحصين من لفظه عليه الصلاة والسلام، وهو: «الحمد لله نحمده و نستعين به ونستغفره و نعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهد الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، و أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، و أشهد أنّ محمدًا عبده ورسوله {يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة} [النساء: 1] إلى {رقيبا} [النساء: 1] {يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللّٰه حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون} [آل عمران: 102] {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا} [الأحزاب: 70] إلى قوله: {عظيما} [الأحزاب: 71] » . اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں