بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سب سے بڑا گناہ انسانی حقوق میں حق تلفی کرنا ہے؟


سوال

انسانی حقوق کے بارے میں  سمجھا دیں،اورکیا انسانی حقوق میں حق تلفی  سب سے بڑا گناہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ انسانی حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جو انسانوں کے آپس میں ایک دوسرے پر  ہیں ،جیسےمیاں بیوی کے آپسی حقوق،والدین اور اولاد کےحقوق،استاد ،شاگر کے ایک دوسرے پر حقوق،ایک پڑوسی کے دوسرے پڑوسی پر حقوق،ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق،یہاں تک کہ ایک مسلمان پر کافر ذمی کے حقوق  ،ان حقوق میں بنیادی طور پر کسی پر ظلم نہ کرنا،برابھلا نہ کہنا،بڑوں کا ادب کرنا،کسی کا مال نا حق طور پر نہ کھانا،کسی کا دل کا نہ دکھانا،والدین یا استاذ ہے ،تو ان کی نافرمانی نہ کرنا،کسی کا خون نہ بہانا،کسی پر تہمت نہ باندھناوغیرہ یہ سب  حقوق میں شامل ہیں ،اور یہ حقوق ایسے ہیں کہ اگر ان میں کوتاہی ہوئی تو جب تک صاحب حق سے معافی نہ مانگی جائےاوراس سے حق ساقط نہ کروایا جائے تب تک ذمہ میں اس کا بوجھ باقی رہتا ہے،حدیث شریف میں آتا ہے،کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ اور ساز و سامان نہ ہو،اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا،تاہم اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت دھری ہو گی، کسی کا مال (ناحق) کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا،چنانچہ اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی، اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں ،اور اس پر واجب الاداء حقوق ابھی باقی رہے، تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے، اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

ایک اور روایت میں آتا ہےکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :"جس نے کسی پر ظلم کیا ہو،تو وہ آج ہی معاف کرالے،قبل اس کے کہ وہ دن آئے ،جب کہ درہم اور دنانیر نہیں ہوں گے،پھر اعمال صالحہ سے صاحب حق کو اس کا حق دیا جائے گا"،بعض کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہےکہ :ایک دانق کے بدلے میں سات سو باجماعت پڑھی گئی نمازیں حقدار کو دی جائیں گی۔

ان تمام روایت سے حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ  بخوبی ہوجاتا ہے،اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانی حقوق میں حق تلفی کرناگناہ کبیرہ ہے،لیکن یہ بھی واضح رہے کہ سب سے بڑاگناہ  جس کی کوئی معافی عند اللہ نہیں ہے،وہ شرک ہے،کیوں کہ اللہ تعالی تمام  گناہوں کو معاف فرماسکتا ہے،لیکن شرک ایک ایسا گناہ ہے کہ اس کی کوئی معافی سوائے توحید کےاقرار کے اور کوئی  نہیں ۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌أتدرون ‌من ‌المفلس»؟ قالوا: المفلس فينا يا رسول الله من لا درهم له ولا متاع، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاته وصيامه وزكاته، ويأتي قد شتم هذا وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا فيقعد فيقتص هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقتص ما عليه من الخطايا أخذ من خطاياهم فطرح عليه ثم طرح في النار»."

(‌‌باب ما جاء في شأن الحساب والقصاص، ج:٤، ص:٦١٣، ط:مطبعة مصطفى)

صحیح بخاری میں ہے:

"‌عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كانت له مظلمة لأحد من عرضه أو شيء فليتحلله منه اليوم، قبل أن لايكون دينار ولا درهم، إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته، و إن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه»."

(باب من كانت له مظلمة عند الرجل،  ج:٣:ص:١٣٠، ط:دارطوق)

الاشباه والنظائز لابن نجيمميں ہے:

"«الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد بل يصلي لوجه الله تعالى فإن كان خصمه لم يعف يؤخذ من حسناته يوم القيامة.جاء في بعض الكتب: أنه‌يؤخذ ‌لدانق ثواب سبع مائة صلاة بالجماعة، فلا فائدة في النية وإن كان عفافلايؤاخذ به فما الفائدة حينئذ.وقد أفاد البزازي بقوله: في حق سقوط الواجب أن الفرائض مع الرياء صحيحة مسقطة للواجب»."

(الخامس في بيان الاخلاص، ص:33: ط:دارالكتب)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عبد الله قال: سألت النبي صلى الله عليه و سلم: أي الذنب أعظم عند الله؟ قال: أن تجعل لله ندًّا وهو خلقك، قلت: إن ذلك لعظيم، قلت: ثم أي؟ قال: و أن تقتل ولدك تخاف أن يطعم معك. قلت: ثم أي؟ قال: أن تزاني حليلة جارك."

(أخرجه البخاري في باب قوله تعالى: {فلا تجعلوا لله أندادا وأنتم تعلمون } ، ج:٤، ص:١٦٢٦، ط: دار ابن كثير) 

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:

"وقال الكرماني: تقدم أن أكبر الكبائر قول الزور، ثم قال: لا خلاف أن أكبر الكل الإشراك بالله، ثم اعتبر في كل مقام ما يقتضي حال السامعين زجرًا لما كانوا يسهلون الأمر فيه..".

(كتاب الأدب، باب قتل الولد خشية أن يأكل معه، ج:٢٢، ص:١٠٢،ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں