بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سورۂ کہف جمعہ کی نماز سے پہلے پڑھنے سے ہی فضیلت حاصل ہوگی؟


سوال

کیا سورۂ کہف جمعہ سے پہلے پڑھنے سے ہی فضیلت حاصل ہوگی؟

جواب

شبِ جمعہ (جمعہ کی رات) اور جمعہ کے دن دونوں میں سورۂ  کہف پڑھنے کے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں، بعض روایات میں صرف جمعہ کی رات کا ذکر ہے اور بعض میں صرف جمعہ کے دن کا ذکر ہے، شارحینِ حدیث  نے لکھا ہے کہ ان تمام روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جن روایات میں صرف رات کا ذکر ہے ان سے مراد رات اپنے دن سمیت ہے اور جن روایات میں صرف دن کا ذکر ہے ان سے مراد دن اپنی گزشتہ رات سمیت ہے۔

 لہذا جمعرات کی مغرب کے بعد جو رات ہے وہ شب جمعہ ہے، اس کے بعد سے لے کر جمعہ کی نماز سے پہلے یا جمعہ کی نماز کے بعد  کوئی  سورۂ کہف پڑھ لے تو  اس کو فضیلت حاصل ہوجائے گی، تاہم اول وقت میں پڑھ لینا بہتر ہے، کیوں کہ نیکی میں سبقت پسندیدہ ہے، اور تاخیر میں چھوٹ جانے کا امکان بھی ہے۔

البتہ   جمعہ کی رات سے بھی پہلے جمعرات کے دن سورۂ کہف پڑھنے سے یہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔

’’سنن دارمی‘‘   کی روایت میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق".

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کی رات میں پڑھی اس کے لیے اس کی جگہ سے مکہ تک ایک نور روشن ہوگا۔ (2/546دارالکتاب العربی)

فيض القدير (6/ 198):
"مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ". (ك هق) عن أبي سعيد".

(من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين) فيندب قراءتها يوم الجمعة وكذا ليلتها كما نص عليه الشافعي رضي الله عنه، قال الطيبي: وقوله: "أضاء له"، يجوز كونه لازمًا، وقوله: "ما بين الجمعتين" ظرف؛ فيكون إشراق ضوء النهار فيما بين الجمعتين بمنزلة إشراق النور نفسه مبالغةً، ويجوز كونه متعديًا، والظرف مفعول به، وعليهما فسر: {فلما أضاءت ما حوله} ... (ك) في التفسير من حديث نعيم بن هشام عن هشيم عن أبي هاشم عن أبي مجلز عن قيس بن عبادة عن أبي سعيد (هق عن أبي سعيد) الخدري قال الحاكم: صحيح، فردّه الذهبي، فقال: قلت: نعيم ذو مناكير، وقال ابن حجر في تخريج الأذكار: حديث حسن، قال: وهو أقوى ما ورد في سورة الكهف".

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس  کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے۔

فيض القدير (6/ 199):
"(من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق) قال الحافظ ابن حجر في أماليه: كذا وقع في روايات يوم الجمعة وفي روايات ليلة الجمعة ويجمع بأن المراد اليوم بليلته والليلة بيومها".

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لیے اس کی جگہ سے مکہ تک ایک نور روشن ہوگا۔

’’فتاوی شامی‘‘  میں ہے:

"مطلب ما اختص به يوم الجمعة

(قوله: قراءة الكهف) أي يومها وليلتها، والأفضل في أولهما مبادرةً للخير وحذراً من الإهمال". (2/164دارالفکر)فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں