بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گارڈ کو سویا ہوا پانے پر ان کی پوری رات کے پیسے کاٹ لینا درست ہے؟


سوال

 میں نے گلی میں دو گارڈ پرائیویٹ کمپنی کے رکھے ہوئے ہیں اور میں ان کا انچارج ہوں، میرا کمپنی کے ساتھ یہ معاہدہ ہے کے جب بھی کوئی گارڈ چاہے دن والا یا رات والا اگر سویا ہوا پکڑا گیا تومیں اس کی فوٹو اتاروں گا اور کمپنی کو بھجوا دوں گا اور اس دن یا رات کی ڈیوٹی کے پیسے نہیں دوں گا،اب مسئلہ یہ ہے کہ ہر گارڈ کی 12 گھنٹے کی ڈیوٹی ہے، دن والا گارڈ تو سویا ہوا کبھی پکڑا نہیں گیا لیکن رات والا گارڈ تقریباً ہر مہینے 3 سے 4 دفعہ سوتے ہوئے پکڑا جاتا رہا ہے اور میں اس کی تنخواہ کاٹ کر  دیتا رہا ہوں، اس کے بدلے مجھے ہر مہینے گارڈ بدعائیں دیتا ہوا گلی سے چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ ڈیوٹی پر نیا گارڈ آ جاتاہے، نوٹ: اب میں ایک گھنٹا کھڑے ہو کر گارڈ کو نہیں دیکھتا کہ گارڈ کتنی دیر سے سو رہا ہے، بلکہ رات کو ایک دفہ چکر لگایا تو دیکھا گارڈ سو رہا ہے تو اس کی فوٹو اتار لی اور پیسے کاٹ لیے لیکن ایسا بھی ہوتا تھا کہ جب میں رات کو دوبارہ کسی کام سے گلی میں نکلا تو وہی گارڈ اٹھا ہوا ہے اور ڈیوٹی کر رہا ہے اور کئی دفعہ  وہ دوبارہ دیکھنے پر سویا ہوا پایا گیا، مطلب یہ ہے کہ کبھی گارڈ تھوڑی دیر سو کر اٹھ جاتا تو کبھی گارڈ لمبا سو جاتا لیکن میں اس کی تنخواہ کاٹ لیتا تھا کہ گارڈ سویا ہی کیوں تھا چاہے ایک گھنٹے کے لیے سویا یا پوری رات سویا۔

سوال 1: کیا سوئے ہوئے گارڈ کے پکٹرے جانے پر میرا ان کی پوری رات کے پیسے کاٹ لینا درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا پیسے گارڈ کو واپس کرنے پڑیں گے؟ جبکہ وہ گارڈ گلی سے جا چکے ہیں اور میں ان کو ڈھونڈ نہیں سکتا اور کمپنی پر مجھے 1% بھی اعتبار نہیں کہ وہ گارڈوں کو پیسے ایمان داری کے ساتھ لوٹائیں گے کیونکہ گارڈوں کو کمپنی والے سے بھی شکایت تھی کہ کمپنی والا ہمیں پوری تنخواہ نہیں دیتا۔

سوال 2: کیا گارڈوں کی بدعائیں دینا درست تھا؟ اگر درست تھاتو میں اب کیا کروں؟ کیا اللہ تعالی اب ان کی بددعاؤوں  کی وجہ سے مجھ سے ہمیشہ کے لیے ناراض رہیں گے؟ اس غلطی کو درست کیسے کیا جائے تاکہ وہ بدعائیں مجھے نا لگیں اور اگر لگ گئیں ہیں تو مجھ سے دور ہو جائیں اور اللہ تعالی مجھ سے راضی ہو جائیں ۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے اوقات میں حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا  تو اس غیر حاضری کے بقدر وہ تنخواہ  کا مستحق نہیں ہوتا،لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ   کمپنی کا یہ ضابطہ" کہ  گارڈ سویاہواپائے جانے کی وجہ سے  پورے  ایک دن یا ایک رات  کی تنخواہ کاٹی جائے گی " شرعاً درست نہیں ؛ اس لیے کہ ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تنخواہ کا وہ مستحق ہےاوراسے اتنی تنخواہ دینا ضروری ہے،البتہ تنخواہ میں کٹوتی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ  ملازم کی ماہانہ تنخواہ کو  اس کی ملازمت کے مکمل وقت (مثلًا صبح 8 سےشام 5 بجے تک وغیرہ)میں تقسیم کردیا جائے،  پھر جس دن یا رات  کوئی ملازم ملازمت کے وقت میں  سویاہواپائے جائےتو  اس کی تنخواہ  میں سے صرف اس وقت  کے بقدر کٹوتی کی جائے۔ 

سائل نے مذکورہ گارڈوں کے  مذکورہ وقت سےزیادہ جتنے پیسے کاٹے ہیں تو سائل پر لازم ہے کہ وہ رقم ان کو واپس کردے ،جس کی صورت یہ ہے کہ سائل کمپنی والوں سے  ہرگارڈ  کاایڈریس  اورفون نمبر معلوم کرکے ان تک پہنچائے اوراگر کسی طریقے سے بھی ان تک پہنچاناممکن نہ ہوتوپھر سائل مذکورہ گارڈوں کی طرف سے  نیت کرکے وہ رقم صد قہ کردے ۔

2۔سائل کا اگر ان سے ملنا ممکن ہوتو سب سے معافی مانگے وگرنہ   توبہ واستغفار کرے اوران کے حق میں دعائیں کرتارہے ۔

ملحوظ رہے کہ جاندار کی تصویر بنانا جائز نہیں ہے، لہٰذا سائل نے  موبائل پر گارڈ کی تصویر  بناکر آگے بھیجی تو سائل گناہ گار ہوا، اس پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ تصویر کشی سے اجتناب کرے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ،باب إجارۃ العبد: 9 /140،ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي بمصر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الأجير ‌الخاص فهناك وإن وقع عمله إفسادا حقيقة، إلا أن عمله يلتحق بالعدم شرعا؛ لأنه لا يستحق الأجرة بعمله، بل بتسليم نفسه إليه في المدة فكأنه لم يعمل."

(ج:4، ص:211، كتاب الإجارة، فصل في حكم الإجارة، ط:سعيد)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(فصل فی التعزیر،ج:5، ص:41، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں