بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شوہر بیوی کو اپنے میکے والوں کے فسادی ہونے کی وجہ سے ان سے ملنے سے روک سکتاہے ؟


سوال

میں شادی شدہ ہوں ہماری  شادی کو دس مہینے ہوئے ہیں ۔ تفصیل : میر سسرال والے مزاری عقائد کے ماننے والے ہیں ، ان کا مزاروں میں مستقل آنا جانا رہتا ہے ، مزید یہ کہ ایک مزاری شحص کا جو ان کا رشتہ دار بھی نہیں ہے ،ان کے گھر مستقل آنا جانا رہتا ہے ، جس کے سامنے میری سالیاں اور میری ساس اپنے شوہر سمیت یعنی ان کی موجودگی میں بے پردہ ہو کر بیٹھتی ہیں ،اور آپس میں اعلی گپ شپ لگی رہتی ہے ۔ شادی کے بعد ہم دونوں میاں بیوی میرے اپنے والدین کے گھر خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے ،تین چار ہفتے گزرے تو  میرے سسرال والوں نے میری بیوی کو اکسانا شروع کر دیا ،اور پھر الگ گھر کا مطالبہ کر دیا ، میں نے اپنے تعلقات بہتر رکھنے کی خاطر کرایہ کے مکان میں رہنے کا فیصلہ کیا، اور ہم کرایہ کے مکان میں آکر رہنے لگے ، میر سسرال والوں کا میری بیوی کے سا تھ اور میری بیوی کا ان کے ساتھ تعلق انتہائی مضبوط تھا اور ابھی بھی ہے ، میری بیوی ان لوگوں کی ہر ایک بات مانتی ہے ، اس کی ماں اور بہنوں کی کہی ہوئی باتیں پتھر کی لکیر ہوتی ہیں  اس کے لئے، اس کے ماں باپ ہی سب کچھ ہیں ،اور انہی کے مشورہ پر چلتی ہے ، اس کے سامنے میری باتوں کی کوئی حیثیت نہیں محض وقتی طور پر ۔ سات آٹھ مہینے ایسے ہی چلتا رہا میں صبح سے رات تک روزگار کے لئے نکلتا، اور میری بیوی میکے میں رہتی تھی اور رات واپس آجاتی تھی ، وہ نا محرم شخص میرے سسرال کے یہاں ہوتا تھا ،مجھ سے رہا نہ گیا بالآخر ہم میاں بیوی کے درمیان انتہائی ناچاقیاں بڑھ گئیں، اور نفرتیں پیدا ہو گئیں ۔ پھر ایک دن میں اپنی بیوی کو لے کر میرے اپنے ماں باپ کے گھر مستقل سکونت کے ارادہ سے آگیا، پانچ چھ دن کے بعد ( گزشتہ مہینے ۲۶ رمضان المبارک ) کو مجھے اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا کیا اور ۲۸ رمضان المبارک  رات کے وقت میرے ماں باپ کے گھر ہی میں میرے سسرال والوں کے ساتھ میری شدید منہ ماری اور تلخ کلامی ہوئی ،میرے بیوی ہر بات میں ان کی طرف داری کر رہی تھی ،تو میں نے اسے اختیار دیدیا "کہ تم اپنے  گھر جاسکتی ہو جب اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو میرے پاس آ جانا" وہ اپنی مرضی سے اپنے باپ اور بہنوں کے ساتھ بچہ لےکر اپنے گھر چلی گئی ،میں نے 3 وجوہات کی وجہ سے 3 شرطیں ان کے سامنے رکھیں:

- 1: جب سسرال کے گھر میں سسر کی موجودگی میں بھی ان کی بچیاں بے پردہ اور بے حیاء والی زندگی اپنا رہی ہیں، اور انتہائی غلط عقائد میں ڈوبے ہوئے ہیں، تو میں نے بیوی پر شرط لگائی ،کہ اگر تم میرے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے، تو تمہیں مجھے اختیار کرنا ہوگا، اور اپنے ماں باپ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہوگا ، تمہارے لیے تمہارے ماں باپ کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہے ۔

2: ہم دونوں کے درمیان ناچاقیاں اور نفرتوں کی وجہ چونکہ اس کی ماں اور بہنوں کا اس کے کان بھرنا ، ورغلانا اور غلط درس دینا ہے تو میں نے یہ شرط لگائی کہ تم اپنے گھر والوں سے بالکل لاتعلق رہوگی نہ وہ تم سے ملنے آئیں گے ،اور نہ ہی تم ان سے ملنے جاؤگی ۔

3: چونکہ تم نے اپنے ماں باپ کے گھر کو اختیار کیا ،لہٰذا میں نان نفقہ اور دوائی وغیرہ کا خرچ  نہیں دوں گا ۔

سوال یہ ہے کہ میں ان تین شرائط کی وجہ سے کہیں عند اللہ مستحقِ مواخذہ تو نہیں ہوں گا ؟ شوہر اپنی بیوی کو اپنی زندگی بنانے کے لیے فساد کی صورت میں میکے جانے سے روک سکتا ہے یا نہیں ؟ روکنے کی مدت شوہر کے چاہنے پر ہے یا شریعت میں اس کی حد بندی ہے ؟ شوہر اگر بیوی کو میکے کے ساتھ تعلق کی اجازت نہ دے تو کیا بیوی پر شوہر کی بات ماننا لازم ہے یا نہیں ؟ لڑکی کے ماں باپ کو شریعت میں بیٹی سے ملاقات پر کتنا حق دیا ہے جبکہ شوہر ان کی ملاقات پر رضامند ہو ؟ اور دوسری صورت شوہر رضامند نہ ہو ؟ براہِ کرم بالتفصیل رہنمائی فرما دیجیئے ۔

جواب

واضح رہے کہ شوہر کے لیے اس بات کی شرعا اجازت نہیں ہے  کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے والدین یا سگے رشتہ داروں سے ملنے سے روکے ،بلکہ بیوی ہفتہ میں ایک بار اپنے والدین سے ملنے کا حق رکھتی ہے ،اور اسی طرح سال میں ایک بار اپنے  دیگر محارم رشتہ داروں سے ملنے کا بھی  رکھتی ہے ،لہذا سائل کو چاہیئے کہ وہ اپنی پہلے دو شرائط کو ختم کردے ،ورنہ قطع تعلقی کے گناہ کا مرتکب ہوگا۔

البتہ اگر میکے والوں کی طرف سے فساد پھیلا یا جارہاہے تو اس کے ازالہ کی صورت یہ ہے کہ  بار بار ملاقات نہ کرائے ،بلکہ جس طرح سے شریعت نے حد بندی کی ہے ،اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے  ہفتہ میں ایک بار والدین  سے،اور سال میں ایک بار دیگر محارم رشتہ داروں سے  ملاقات کرادے ،اور ملاقات یا تو اپنی موجودگی میں کرائے ،اور یا ایسے وقت میں کرائے کہ جب بے پردگی ،اور دیگر غلط عقائد کے پھیلنے کا امکان  نہ ہو۔

اور بیوی کے گھر والوں کو چاہیئے کہ وہ بے پردگی سے بچیں ،اپنے عقائد کو درست رکھیں ،اور والدین  اپنی بیٹی کے گھر کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں۔

نیز بیوی کو چاہیئے کہ وہ واپس اپنے شوہر کے پاس آجائے ،ایسی عورت جو بلاوجہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر اپنے میکے میں چلی جائے ،تو اس پر سارے آسمان کے فرشتے اور رحمت و عذاب کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ۔اگر بیوی واپس نہیں آتی اور والدین کے گھر رہنے کو اختیار کرلیتی ہے، تو اس کا نان نفقہ شوہر کے ذمے میں نہیں ہے، البتہ بیٹے کا خرچہ والد کے ذمہ لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الصحيح المفتى به من ‌أنها ‌تخرج ‌للوالدين في كل جمعة بإذنه وبدونه، وللمحارم في كل سنة مرة بإذنه."

(باب النفقة،مطلب في الكلام على المؤنسة،ج:3، ص:603، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدا من أهلها منالدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك قال بعضهم: لا يمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا - رحمهم الله تعالى -، وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان وقيل: لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرة، وعليه الفتوى كذا في غاية السروجي وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر، وقال مشايخ بلخ في كل سنة وعليه الفتوى."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتده،ج:1، ص:557، ط:دار الفکر)

الترغیب والترہیب میں ہے:

"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله أخبرني ما حق الزوج على الزوجة فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيما قال فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعا إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع."

(كتاب النكاح وما يتعلق به،ج:3، ص:38، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) نفقة لأحد عشر ... و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود."

(باب النفقة، ‌‌مطلب لا تجب على الأب نفقة زوجة ابنه الصغير، ج:3، ص:575، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں