بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ گھر میں اپنی بہن کو بھی رہائش دے؟


سوال

میری نند جس کی لیٹ شادی ہوئی، مگروہ5دن کے بعد واپس آگئی ،ساس سسر فوت ہو گئے ہیں ،23 سال سے وہ میرے ساتھ ہے،گھرہمارا اپنا یعنی میرے شوہرکا ہے، میں اب23سال بعد چاہتی ہوں کہ وہ دوسرے بھائیوں کے پاس چلی جائے جو سب علیٰحدہ رہتے ہیں،  میرے 3اور دیور ہیں، مگر نہ میرےشوہراس کو دوسرے بھائیوں کے پاس بھیجنا چاہتے ہیں اور نہ وہ خود جانا چاہتی ہے، میں نےاپنےشوہر کی 23 سال سے  بات مانی، ان کے گھر والوں کو ساتھ رکھا، اب ان کو میری بھی بات ماننی چاہیے کہ میں الگ ہو ں، نند نہ ہو ساتھ،  اس نے شادی بھی نہیں کر نی دوبارہ، میں اس لیے پریشان ہو ں، کیا ضروری ہے کہ وہ میرے ساتھ رہے ؟میرا حق نہیں الگ ہونے کا کہ نند نہ ہو ساتھ میرے؟ کیسے شوہر کو مناؤں؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے سائلہ کے لیے ایسا  علیحدہ رہنے اور پکانے کا انتظام کیا ہوا جس میں بہن کا کوئی عمل دخل نہ ہو  تو پھر سائلہ کو حق نہیں کہ وہ بہن کو دوسرے بھائیوں کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کرے،ہاں اگر اس طرح کا الگ انتظام نہیں تو سائلہ رہنے اور پکانے کے الگ انتظام کا مطالبہ کرسکتی ہے، لیکن بہن کو دوسرے بھائیوں کے پاس بھیجنے کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔

نیز سائلہ کو چاہیے کہ وہ سائلہ کا شوہر جو اپنی بہن کے ساتھ نیکی کر رہا ہے اس میں سائلہ اپنے شوہر کا ساتھ دے، اللہ  تعالیٰ سے امید  ہے کہ اس نیکی میں سائلہ کا بھی پورا پورا  حصہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله) سوى طفله الذي لا يفهم الجماع وأمته وأم ولده (وأهلها) ولو ولدها من غيره (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية. وفي البحر عن الخانية: يشترط أن لا يكون في الدار أحد  من أحماء الزوج يؤذيها

قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء ويأتي تمامه قريبا

(قوله وفي البحر عن الخانية إلخ) عبارة الخانية: فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لها أن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها. اهـ.

قال المصنف في شرحه: فهم شيخنا أن قوله ثمة أشار للدار لا البيت؛ لكن في البزازية: أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر. اهـ فضمير فيه راجع للبيت لا الدار وهو الظاهر، لكن ينبغي أن يكون الحكم كذلك فيما إذا كان في الدار من الأحماء من يؤذيها وإن لم يدل عليه كلام البزازي. اهـ قلت: وفي البدائع: ولو أراد أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأمه وأخته وبنته فأبت فعليه أن يسكنها في منزل منفرد؛ لأن إباءها دليل الأذى والضرر ولأنه محتاج إلى جماعها ومعاشرتها في أي وقت يتفق لا يمكن ذلك مع ثالث؛ حتى لو كان في الدار بيوت وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا ليس لها أن تطالبه بآخر. اهـ فهذا صريح في أن المعتبر عدم وجدان أحد في البيت لا في الدار."

(کتاب الطلاق، باب النفقہ، ج نمبر۳، ص نمبر ۵۹۹،ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں