کیا بیوی کے حقوق میں اس قسم کی کوئی چیز شامل ہے کہ شوہر اس سے ہر چیز شیئر کرے؟قرآن میں آتا ہے میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں، اس سلسلے میں اس کی وضاحت کردیں۔
کیا شوہر کو اپنے گھر والوں پر یا کسی دوسری جگہ پیسے خرچ کرتے وقت اپنی بیوی سے پوچھنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟
اگرشوہر اپنی بیوی کو منع کردے کہ خرچوں پر سوال جواب نہ کرے تو اس سے بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی تو نہ ہوگی؟
1۔واضح رہے کہ شوہر پر بیوی کے جو حقوق شرعًا لازم ہیں، اس میں اس کا نان و نفقہ، لباس اور رہائش کا انتظام کرنا شامل ہے، شوہر پر یہ لازم نہیں کہ ہر بات اپنی بیوی کو بتائے یا کوئی بھی کام کرتے وقت اس سے پوچھے، ہاں جو امور عورت کی ذات سے متعلق ہوں ان امور میں بیوی سے رائے لینی چاہیے، باقی جہاں تک میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے، اس کا مفہوم یہ نہیں ہےکہ میاں بیوی ہر ہر بات ایک دوسرے کو بتائیں، بل کہ مفسرین کرام نے واضح کیا ہے کہ اس کا مطلب میاں بیوی کا ایک دوسرے سے جسمانی تعلق قائم کرنے کے جواز کا بیان ہے، نیز میاں بیوی ایک دوسرے کے عیوب کو دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کریں، بلکہ لباس کی مانند ایک دوسرے کی پردہ پوشی کریں۔
2۔شوہر پر یہ بات لازم نہیں ہے کہ وہ اپنی رقم خرچ کرنے کےلیے اپنی بیوی سے اجازت لے، ہاں اگررقم بیوی کی ہو تو اسے اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے۔
3۔بیوی کا شوہر سے اخراجات کا حساب کتاب لینا اس کے حقوق میں سے نہیں ہے، لہٰذا شوہر اگر بیوی کی ضروریات پوری کرتے ہوئے بیوی کو اس سلسلے میں بات کرنے سے منع کردے تو اس سے بیوی کی حق تلفی لازم نہیں آئےگی اور بیوی پر بھی لازم ہےکہ جب شوہر اس کے حقوق ادا کررہا ہے، اس کے نان ونفقہ میں کمی نہیں کررہا اور دیگر اخراجات کے بارے میں بات کرنے سے منع کررہا ہے تو شوہر سے باز پرس نہ کرے۔
اس نوعیت کے معاملات کے بارے میں ایک دوسرے کو شریک رکھنا، یہ محبت کی نوعیت پر ہے، جب دونوں میں مثالی محبت ہو اور ایک دوسرے کے مزاج شناس ہوں تو غیر ضروری امور میں بھی ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہیں اور مشورہ لیتے ہیں، لہٰذا ایسی چیزوں پر باہم الجھنے کے بجائے ایک دوسرے کی دل جوئی کی کوشش کریں ۔
قرآن کریم میں ہے:
"أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُمْ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتابَ عَلَيْكُمْ وَعَفا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوها كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آياتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ[البقرة:187]"
"ترجمہ:تم لوگوں کے واسطے روزہ کی شب میں اپنی بیبیوں سے مشغول ہونا حلال کردیا گیا؛ کیوں کہ وہ تمھارے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو ۔ خدا تعالیٰ کو اس کی خبر تھی کہ تم خیانت (کرکے گناہ میں اپنے کو مبتلا) کررہے تھے (مگر) خیر الله تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی تم سے گناہ کو دھودیا ۔ سو اب ان سے ملو ملاؤ ۔ اور جو (قانون اجازت) تمھارے لیے تجویز کردیا ہے (بلاتکلف) اس کا سامان کرو اور کھاؤ اور پیو (بھی) اس وقت تک کہ تم کو سفید خط (کہ عبارت ہے نور) صبح (صادق) کا متمیز ہوجاوے سیاہ خط سے پھر (صبح صادق سے) رات تک روزہ کو پورا کیا کرو ۔ اور ان بیبیوں (کے بدن) سے اپنا بدن بھی مت ملنے دو جس زمانہ میں کہ تم لوگ اعتکاف والے ہو مسجدوں میں یہ خداوندی ضابطے ہیں سو ان (سے نکلنے) کے نزدیک بھی مت ہونا اسی طرح الله تعالیٰ اپنے ( اور ) احکام (بھی) لوگوں (کی اصلاح) کے واسطے بیان فرمایا کرتے ہیں اس امید پر کہ وہ لوگ (احکام پر مطلع ہوکر خلاف کرنے سے) پرہیز رکھیں ۔"(بیان القرآن)
تفسیر أبی السعود میں ہے:
"{هن لباس لكم وأنتم لباس لهن} استئناف مبين لسبب الإحلال وهو صعوبة الصبر عنهن مع شدة المخالطة وكثرة الملابسة بهن وجعل كل من الرجل والمرأة لباسا للآخر لاعتناقهما واشتمال كل منهما على الآخر بالليل قال … إذا ما الضجيع ثنى عطفها … تثنت فكانت عليه لباسا …أو لأن كلا منهما يستر حال صاحبه ويمنعه من الفجور."
(البقرة، الآية:187، ج:1، ص:201، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512101253
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن