بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شوگر کی بیماری کی وجہ سے مرنے والا شہید کہلائے گا؟


سوال

اگر کوکوئی شخص شوگر کی بیماری کی وجہ سے فوت ہوجاتاہے، تو کیا وه شہید ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فقہاءِ کرام نے شہید  کی دو قسمیں بیان کی ہیں:  حقیقی اور حکمی۔ اور درحقیقت یہ دو قسمیں دنیاوی اَحکام کے اعتبار سے ہیں؛ چناں چہ ’’حقیقی شہید‘‘  وہ کہلاتا ہے،  جس پر شہید کے دنیاوی احکام  لاگو ہوتے ہیں، یعنی اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا، اور جنازہ پڑھ کراُن ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن میں شہید ہوا ہے، بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ اسی جگہ دم توڑجائے، اور اس پر زخمی ہونے کے بعد دم توڑنے تک ایک نماز کا وقت نہ گزرا ہو۔

’’حکمی شہید‘‘  وہ کہلاتا ہے، جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے اَحکام جاری ہوں گے، یعنی اس کو غسل دیا جائے گا، اور کفن بھی دیا جائے گا، مثلاً ڈوبنے والا، موذی مرض سے مرنے والا وغیرہ، تو ان تمام پر ’’حکمی شہید‘‘ کا اطلاق ہوتاہے، یعنی انہیں غسل بھی دیا جائےگا، کفن بھی پہنایا جائےگا،اور ان کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی، لیکن آخرت میں ان کے ساتھ شہیدوں والا معاملہ کیا جائے گا۔

شوگر بھی ایک موذی مرض ہے، کیوں کہ شوگر کا مریض کو مختلف قسم کی تکلیفوں اور ایذاؤں کا سامنا ہر وقت کرنا پڑتا ہے، اسی بناء پر اس مرض سے مرنے والے شخص پر شہیدِ حکمی کا اطلاق کیا جاسکتاہے۔ 

صحیح البخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الشهداء ‌خمسة: المطعون والمبطون والغرق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله."

(كتاب الجهاد والسير، باب الشهادة سبع سوى القتل، رقم الحدیث:2829، ج:4، ص:24، ط: دار طوق النجاۃ)

فتح الباری میں ہے:

"وقال بعض المتأخرين يحتمل أن يكون بعض الرواة يعني رواة الخمسة نسي الباقي قلت وهو احتمال بعيد لكن يقربه ما تقدم من الزيادة في حديث أبي هريرة عند مسلم وكذا وقع لأحمد من وجه آخر عنه والمجنوب شهيد يعني صاحب ذات الجنب والذي يظهر أنه صلى الله عليه وسلم أعلم بالأقل ثم أعلم زيادة على ذلك فذكرها في وقت آخر ولم يقصد الحصر في شيء من ذلك وقد اجتمع لنا من الطرق الجيدة أكثر من عشرين خصلة فإن مجموع ما قدمته مما اشتملت عليه الأحاديث التي ذكرتها ‌أربع ‌عشرة ‌خصلة."

(جزء ٦، قوله باب الشهادة سبع سوى القتل، ج:6، ص:43، ط:دار المعرفة)

الدر المختار میں ہے:

" وكل ذلك في الشهيد الكامل، وإلا فالمرتث شهيد الآخرة وكذا الجنب ونحوه ........ وقد عدهم السيوطي نحو الثلاثين.

وفي الرد: (قوله: في الشهيد الكامل) وهو شهيد الدنيا والآخرة، وشهادة الدنيا بعدم الغسل إلا لنجاسة أصابته غير دمه كما في أبي السعود، وشهادة الآخرة بنيل الثواب الموعود للشهيد أفاده في البحر ................ (قوله وقد عدهم السيوطي إلخ) أي في التثبيت نحو الثلاثين فقال: من مات بالبطن .... أو الغرق أو الهدم أو بالجنب. والمعنى أنها ماتت من شيء مجموع فيها غير منفصل عنها من حمل أو بكارة .... أو بالسل وهو داء يصيب الرئة، ويأخذ البدن منه في النقصان والاصفرار. وفي الغربة أو بالصرع، أو بالحمى، أو دون أهله أو ماله أو دمه أو مظلمة، أو بالعشق مع العفاف والكتم، وإن كان سيئة حراما، أو بالشرق؟ ، أو بافتراس السبع أو بحبس سلطان ظلما، أو بالضرب، أو متواريا، أو لدغته هامة، أو مات على طلب العلم الشرعي، أو مؤذنا محتسبا أو تاجرا صدوقا، ومن سعى على امرأته وولده وما ملكت يمينه يقيم فيهم أمر الله - تعالى- ويطعمهم من حلال كان حقا على الله - تعالى - أن يجعله من الشهداء في درجاتهم يوم القيامة والمائد في البحر: أي الذي حصل له غثيان والذي يصيبه القيء له أجر شهيد ومن ماتت صابرة على الغيرة لها أجر شهيد.....الخـ."

(کتاب الصلوٰۃ، باب الشھید، ج:2، ص:253،252، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں