بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شرک کے سوا ہر گناہ معاف ہے یا نہیں؟


سوال

کیا  شرک کے سوا ہر گناہ معاف  ہے  یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کبیرہ  گناہ خود بخود  معاف نہیں ہوتا ، بلکہ گناہ  معاف کرنے کے لیے توبہ کرنا ضروری ہے،ہاں صغیرہ گناہ نیک اعمال کے سبب  یا کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے ،  توبہ کے بغیر بھی معاف کر دیے جاتے ہیں، جس کا بیان مختلف آیات و احادیث میں آیا ہے(حوالہ نمبر1) ، باقی  گناہ کی نوعیت کے اعتبار سے توبہ کے طریقے میں بھی تفصیل ہے،وہ یہ ہے  کہ : بنیادی طور پر حقوق کی دو قسمیں ہیں: 1حقوق اللہ، 2: حقوق العباد، پھر حقوق اللہ کی بھی دو اقسام ہیں:مامورات(یعنی وہ امور جن کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور  ان کو چھوڑنے کاگناہ ملتا ہے) اور منہیات(وہ امور جن سے روکا گیا ہے اور  ان کو کرنے کا گناہ ہے) ، نیز حقوق العباد کی بھی دو اقسام ہیں: ایک وہ جن کا تعلق مال سے ہو، دوم وہ جن کا تعلق مال سے نہ ہو ۔

(حقوق اللہ کی پہلی قسم)  مامورات: اگر چھوٹ گئے ہیں:مثلاً زکات فرض ہونےکے باوجود ادا نہیں کی ہے، حج فرض ہوجانے کے بعد بھی ادا نہیں کیا ہے، فرض نمازیں چھوڑ دی ہیں، تو ان کے کے لیے محض زبان سے توبہ کرنا کافی نہیں ، بلکہ قضاء ضروری ہے، اور ساتھ میں تاخیر کرنے پر توبہ کرے۔ اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ وصیت بھی کر لے کہ اگر میرا انتقال ہوجائے تو میرے مال میں سے میری اتنی نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے ۔(حوالہ نمبر2)

( حقوق اللہ کی دوسری قسم) : منہیات: اگر کسی سے اس قسم کا گناہ سرزد ہوجائے ، پھر وہ دل سے توبہ کرے تو ایسا گناہ توبہ سے ہی معاف ہوجاتا ہے، مثلاً کسی نے جھوٹ بولا، یا شراپب پی لی تو سچے دل سے توبہ کرنے اس کا گناہ معاف ہوجائے گا۔ توبہ کی علماء نے تین شرائط لکھی ہیں: 1: اپنے گناہ پر نادم ہو، 2: گناہ کو فی الفور چھوڑ دے، 3: آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ عزم ہو۔(حوالہ نمبر3)

(حقوق العباد کی پہلی قسم) جو مالی معالملات کی قبیل سے ہو: مثلاً کسی کا مال چوری کر لیا ہو، یا بزور زبردستی چھین کر کھا لیا ہو، تو اس  کی معافی کے لیے زبانی توبہ کافی نہیں،  بلکہ صاحبِ حق کو اس کا مال لوٹانا ضروری ہے یا صاحبِ حق سے معاف کروالے، اگر اس کا انتقال ہوچکا ہو تو ورثاء کو مال پہنچانا ضروری ہے، اور اگر اس کا علم نہ ہو کہ کس کا مال تھا تو اس کی طرف سے غریبوں کو صدقہ کرنا ضروری ہے،  اس کے بغیر معافی نہیں ہوگی۔(حوالہ نمبر4)

(حقوق العباد کی دوسری قسم) جو غیر مالی ہو، مثلاً کسی کو ایذاء پہنچائی ہو، تو اس سے معافی مانگنا ضروری ہے، اگر اس کا پتہ نہ چلے یا انتقال ہو چکا ہو تو اس کے لیے کثرت سے دعا کرے ، امید ہے اللہ تعالی اس کو راضی کردیں گے، وگرنہ قیامت میں اس کے گناہ کا بار آئے گا، اور تکلیف پہنچانے والے کی نیکیاں اس شخص کو ملیں گی۔(حوالہ نمبر5)

باقی اللہ تبارک و تعالیٰ قادرِ مطلق ہیں،  روزِ قیامت جسے چاہیں گے  کفر و شرک کے علاوہ گناہ معاف فرمادیں گے، اسی طرح انبیاءِ کرام علیہم السلام، شہداء و علماء و حفاظ کی شفاعت سے بہت سے گناہ گاروں کو معاف فرمادیں گے۔

حوالۂ جات:

(1) ارشاد ِ باری تعالی ہے:

"﴿إِنْ ‌تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا (٣١)﴾ [النساء: 31] "

ترجمہ:"جن کاموں سے تم کو منع کیا جاتا ہے ان میں جو بھاری بھاری کام ہیں اگر تم ان سے بچتے رہو تو ہم تمہاری خفیف برائیاں تم سے دور فرما دیں گے اور ہم تم کو ایک معزز جگہ میں داخل کر دیں گے۔"(بیان القرآن) 

"مشكاة المصابيح"میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الصلوات الخمس والجمعة إلى الجمعة ورمضان إلى رمضان مكفرات لما بينهن إذا ‌اجتنبت ‌الكبائر» . رواه مسلم."

(کتاب الصلاۃ، الفصل الأول، ج:1، ص:179، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا اگر کوئی آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں جو ان کے درمیان ہوئے ہیں۔"

(2): أصول الشاشي میں ہے:

"فحكم هذا النوع أنه إذا وجب على العبد أداؤه لا يسقط ‌إلا ‌بالأداء وهذا فيما لا يحتمل السقوط مثل الإيمان بالله تعالى.

وأما ما يحتمل السقوط فهو يسقط بالأداء أو ‌بإسقاط الأمر.

وعلى هذا قلنا إذا وجبت الصلوة في أول الوقت سقط الواجب بالأداء أو باعتراض الجنون والحيض والنفاس في آخر الوقت باعتبار أن الشرع أسقطها عنه عند هذه العوارض ولا يسقط بضيق الوقت وعدم الماء واللباس ونحوه."

(البحث الأول في كتاب الله، الفصل العاشر في الأمر، ‌‌فصل الأمر بالشيء يدل على حسن المأمور به، ص:142، ط:دار الكتاب العربي)

(3)شرح النووی علی صحیح مسلم میں ہے:

"وللتوبة ثلاثة أركان ‌أن ‌يقلع عن ‌المعصية ويندم على فعلها ويعزم أن لا يعود إليها فإن تاب من ذنب ثم عاد إليه لم تبطل توبته وإن تاب من ذنب وهو متلبس بآخر صحت توبته هذا مذهب أهل الحق."

(كتاب الإيمان، (باب بيان نقصان الإيمان بالمعاصي، ج:2، ص:45، ط:دار إحياء التراث العربي)

(4)"الموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:

"التوبة بمعنى الندم على ما مضى والعزم على عدم العود لمثله لا تكفي لإسقاط حق من حقوق العباد. فمن سرق مال أحد أو غصبه أو أساء إليه بطريقة أخرى لا يتخلص من المسائلة بمجرد الندم والإقلاع عن الذنب والعزم على عدم العود، بل لا بد من رد المظالم، وهذا الأصل متفق عليه بين الفقهاء (3).

قال النووي: إن كانت المعصية قد تعلق بها حق مالي كمنع الزكاة والغصب والجنايات في أموال الناس وجب مع ذلك تبرئة الذمة عنه بأن يؤدي الزكاة، ويرد أموال الناس إن بقيت، ويغرم بدلها إن لم تبق، أو يستحل المستحق فيبرئه، ويجب أن يعلم المستحق إن لم يعلم بالحق وأن يوصله إليه إن كان غائبا إن كان غصبه هناك. فإن مات سلمه إلى وارثه، فإن لم يكن له وارث وانقطع خبره رفعه إلى قاض ترضى سيرته وديانته، فإن تعذر تصدق به على الفقراء بنية الضمان له إن وجده.

وإن كان معسرا نوى الضمان إذا قدر. فإن مات قبل القدرة فالمرجو من فضل الله تعالى المغفرة."

(التوبة، آثار التوبة، ج:14، ص:129-130، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

(5) و فیہ ایضاً:

" وإن كان حقا للعباد ليس بمالي كالقصاص وحق القذف فيأتي المستحق ويمكنه من الاستيفاء، فإن شاء اقتص وإن شاء عفا."

(التوبة، آثار التوبة، ج:14، ص:129-130، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407101669

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں