بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شیعہ مسلمان ہیں؟ اور شیعہ کو مسلمان ماننا کیسا ہے؟


سوال

کیا شیعہ مسلمان ہیں؟اور شیعہ کو مسلمان مانناکیساہے؟

یاعلی مدد اور علی مشکل كشا کہنا اور ماننا کیسا عمل ہے؟ برائے مہربانی کتب کا حوالہ دے کر رہنمائی فرمائیں۔

جواب

اہلِ تشیع میں سے جن کا عقیدہ کفریہ ہو، (مثلاً:تحریفِ قرآنِ کریم کا قائل ہونا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معبود یا نبی ماننا،  امامت کو نبوت سے اٖفضل ماننا، اپنے ائمہ کے لیے علمِ غیب کلی ثابت کرنا،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی  صحابیت  یا آپ کی خلافت کا انکار کرنا وغیرہ) تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور اگر کسی شیعہ کا عقیدہ کفر تک نہ پہنچتاہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوگا، البتہ گمراہ اور اہلِ سنت والجماعت سے خارج ہوگا۔

اب جو شخص شیعہ کو مسلمان مانے تو اس کی تین صورتیں ہیں:

1۔ وہ مطلقاً تمام شیعہ کو مسلمان کہتاہے۔

2۔ کفریہ عقائد جاننے کے باوجود انہیں مسلمان کہتاہے۔ تو ان دونوں صورتوں میں مذکورہ شخص غلطی پر ہے اور گم راہ ہے، اس پر توبہ لازم ہے۔

لیکن جب تک خود ان  کفریہ عقائد کو غلط سمجھے اسے کافر کہنا درست نہیں ہے، اور اگر وہ ان کفریہ عقائد ہی کو صحیح سمجھنے لگے تو اس صورت میں یہ شخص بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔

3۔ اور اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہر شیعہ کافر نہیں ہے، بلکہ جو  شیعہ کفریہ عقائد رکھتاہو وہ کافر ہوگا، اور جس کے عقائد کفر کی حد تک نہ پہنچتے ہوں وہ شیعہ کافر نہیں ہے، البتہ اہلِ سنت سے خارج اور گم راہ ہے تو اس شخص کا موقف  درست ہے۔

باقی جہاں تك "يا علی مدد اور علی مشكل كشا" كہنے كا سوال ہے تو  يہ الفاظ كہنا جائز نہیں ہے،  اس لیے کہ اگر اس سے مقصود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو  پکار کر ان سے استغاثہ ہو  اور یہ اعتقاد ہو کہ ان کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں، جو چاہیں جس کی چاہیں مدد کرسکتے ہیں تو  یہ  کفر اور شرک ہے۔ اگر یہ اعتقاد نہ ہو  تب  یہ موہمِ شرک ضرور ہیں،   "یاعلی مدد" ایک خاص باطل نظریے اور عقیدے کی علامت بن گیا ہے، یعنی یہ کلمہ  ایک باطل فرقے کا شعار ہے ، بلکہ  بعض اہلِ باطل تو اس کلمہ ’’ یا علی مدد ‘‘ کو اُلوہیتِ علی (رضی اللہ عنہ) کے عقیدے سے  کہتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی نیت سے بھی یہ کلمہ کہنا درست نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لا شك في تکفیر من قذف السیدة عائشة رضي اللّٰه عنها أو أنکر صحبة الصدیق أو اعتقد  لألوهیة في علي أو أن جبرئیل غلط في الوحي أو نحو ذلك من الکفر الصریح المخالف للقرآن".

(ردالمحتار، باب المرتد، مطلب مهم: في حکم سب الشیخین، جلد:4، صفحہ: 237، طبع: سعید)

الغنية لطالبي طريق الحق میں ہے:

"(فصل) وأما الشيعة فلهم أسام منها: الشيعة والرافضة والغالية والطيارة.

"وإنما قيل لها الشيعة، لأنها شيعت عليًا -رضي الله عنه- وفضلوه على سائر الصحابة وقيل لها الرافضة لرفضهم أكثر الصحابة وإمامة أبي بكر وعمر -رضي الله عنهما- ... (فصل) فأما الرافضة، فهم ثلاثة أصناف: الغالية، والزيدية، والرافضة ... والذي اتفقت عليه طوائف الرافضة وفرقها، إثبات الإمامة عقلًا وأن الإمامة نص وأن الأئمة معصومون من الآفات من الغلط والسهو والخطأ.

ومن ذلك إنكارهم إمامة المفضول والاختيار الذي قدمناه في ذكر الأئمة.

ومن ذلك تفضيلهم عليًا -رضي الله عنه- على جميع الصحابة وتنصيصهم على إمامته بعد النبي -صلى الله عليه وسلم-، وتبرؤهم من أبي بكر وعمر -رضي الله عنهما- وغيرهما من الصحابة إلا نفرًا منهم سوى ما حكى عن الزيدية، فإنهم خالفوهم في ذلك.

ومن ذلك أيضًا ادعاؤهم أن الأمة ارتدت بتركهم إمامة علي -رضي الله عنه- إلا ستة نفر. وهم علي وعمار والمقداد بن الأسود وسلمان الفارسي ورجلان آخران.

ومن ذلك قولهم: إن للإمام أن يقول لست بإمام في حال التقية.

وأن الله تعالى لا يعلم ما يكون قبل أن يكون، وإن الأموات يرجعون إلى الدنيا قبل يوم الحساب  إلا الغالية منهم، فإنها زعمت بأن لا حساب ولا حشر.

ومن ذلك قولهم: أن الإمام يعلم كل شيء ما كان وما يكون من أمر الدنيا والدين حتى عدد الحصى وقطر الأمطار وورق الشجر، وأن الأئمة تظهر على أيديهم المعجزات كالأنبياء -عليهم السلام-.

وقال الأكثرون منهم: إن من حارب عليًا -رضي الله عنه- فهو كافر بالله -عز وجل-، وأشياء ذكروها غير ذلك ... قال الشعبي: محبة الروافض محبة اليهود، قالت اليهود: لا تصلح الإمامة إلا لرجل من آل داود، وقالت الرافضة: لا تصلح الإمامة إلا لرجل من ولد علي بن أبي طالب."

(القسم الثاني في العقائد، فصل في اصل الفرق الثلاثة والسبعين، جلد:1، صفحه: 179، طبع: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

تفسیر روح المعانی  میں ہے:

"وتحقيق الكلام في هذا المقام أن الاستغاثة بمخلوق وجعله وسيلة بمعنى طلب الدعاء منه لا شك في جوازه إن كان المطلوب منه حيا ولا يتوقف على أفضليته من الطالب بل قد يطلب الفاضل من المفضول.

فقد صح أنه صلّى الله عليه وسلّم قال لعمر رضي الله تعالى عنه لما استأذنه في العمرة: «لا تنسنا يا أخي من دعائك».

وأمره أيضا أن يطلب من أويس القرني رحمة الله تعالى عليه أن يستغفر له، وأمر أمته صلّى الله عليه وسلّم بطلب الوسيلة له كما مر آنفا وبأن يصلوا عليه، وأما إذا كان المطلوب منه ميتا أو غائبا فلا يستريب عالم أنه غير جائز وأنه من البدع التي لم يفعلها أحد من السلف ... الثاني: أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عدّه أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد."

(سورة المائد رقم الأية :35،  جلد:3 صفحه: 294-297-298، طبع: دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں