بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شب معراج کی کوئی تاریخ متعین ہے؟


سوال

آج کل ایک بات جو کہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی طرف منسوب کی جاتی ہے کہ  شبِ معراج کی کوئی تاریخ متعین نہیں اور نہ ہی کوئی مہینہ تو پھر یہ شب معراج کو 27 رجب کے ساتھ خاص کیوں کیا جاتا ہے،  نیز یہ کہ اگر ایسا  ہی ہے تو پھر بریلوی علما اپنی عوام کو کیوں نہیں بتاتے جب کہ ان میں جیّد علماء کرام کی ایک جماعت موجود ہے، لیکن اکثر ان کے علما بھی اس رات کو شبِ معراج بتاتے ہیں اور عبادات بھی کرتے ہیں ۔

جواب

  رجب کی ستائیسویں رات کے بارے میں اگرچہ مشہور ہے کہ یہ شبِ معراج ہے، لیکن یقینی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیوں کہ اس بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ  علیہ و سلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب، بعض میں ربیع الثانی، بعض میں رمضان اور بعض میں شوال  کا مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی، اگر یہ کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، جب کہ شبِ معراج کی تاریخ قطعی طور پرمحفوظ نہیں،  لہذا یقینی  طور سے 27  رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں، ہاں یہ مشہور قول  ضرور ہے، تاہم اگر اس کو متعین مان بھی لیا جائے کہ معراج ستائیس رجب کو ہی پیش آیا تھا ،اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے،اور  اس واقعہ کے بعد تقریباً  12 سال تک آپ  صلی اللہ علیہ و سلم   دنیا میں تشریف فرمارہے، لیکن اس دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو ، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے، نہ توآپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے، اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود حضور صلی اللہ  علیہ و سلم  جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی، اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم  کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے ،اس پوری صدی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے  27  رجب کو خاص اہتمام کرکے نہیں منایا ، لہذا جو چیز حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و سلم  نے نہیں کی، اور جوآپ کے صحابہ کرام نے نہیں کی، جب کہ اس وقت بھی اس کا موقع موجود تھا، اس کو دین کا حصہ قرار دینا ، یا اس کو سنت قرار دینا، یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے اوراس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

 رجب کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے، ان مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہے، البتہ رجب کے مہینہ میں تخصیص کے ساتھ کسی دن روزہ رکھنا صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا 27 رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنے  اور  اس رات شب بیدار رہ کر مخصوص عبادت کرنے (مثلاً: صلاۃ الرغائب وغیرہ )  کا التزام درست نہیں ہے، اور اس کی جو فضیلت عوام میں مشہور ہے کہ اس روزہ کا ثواب ہزار روزے کے برابر ہے یہ درست نہیں ہے۔ اس لیے اس دن کے روزہ کو زیادہ ثواب کاباعث یا اس دن کے روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقاد صحیح نہیں ہے، علماءِ کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے،حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کیا ہے۔

باقی حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کا اس موضوع سے متعلق  ایک بیان ہے، جو ان کے اصلاحی خطبات جلد اول، (مطبوعہ میمن اسلامک پبلشرز، 1993ء) میں شامل ہے، اور الگ سے رسالہ کی شکل میں بھی طبع ہوا ہے، اس کا متعلقہ اقتباس ذیل میں درج ہے:

"شب معراج کی فضیلت ثابت نہیں

مثلاً ۲۷ رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب معراج ہے، اور اس شب کو بھی اسی طرح گزارنا چاہئے جس طرح شب قدر گزاری جاتی ہے، اور جو فضیلت شب قدر کی ہے، کم و بیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے، بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ "شب معراج کی فضیلت شب قدر سے بھی زیادہ ہے " اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دیئے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں، اور ہر رکعت میں فلاں فلاں خاص سورتیں پڑھی جائیں، خدا جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہو گئیں۔ خوب سمجھ لیجئے: یہ سب بے اصل باتیں ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔

شب معراج کی تعیین میں اختلاف

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷  رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیونکہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، بعض رواتوں میں رجب کا ذکر ہے، اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیاہے۔ اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سران پر تشریف لے گئے۔

اگر یہ فضیلت والی رات ہوتی تو اسکی تاریخ محفوظ ہوتی

اس سے آپ خود اندازہ کرلیں کہ اگر شب معراج بھی شب قدر کی طرح کوئی مخصوص رات ہوتی، اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شب قدر کے بارے میں ہیں تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا۔ لیکن چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷  رجب کو شب معراج قرار دینا درست نہیں۔"

(اصلاحی خطبات، ج:1، ص:48-49، ط:میمن اسلامک پبلیشرز)

اس تفصيل سے یہ  واضح ہواکہ  رجب کے روزہ کو  لازم یا زیادہ فضیلت کا باعث سمجھ کر رکھنے کی وجہ سے اس  سے  منع كيا جائے گا، تاہم اگر کسی شخص کی عادت (مثلاً) پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے  کی  ہو اور 27 رجب پیر یا جمعرات کو آجائے  تو ایسے شخص کے لیے اس دن روزہ رکھنے میں حرج نہیں ہوگا اور ایسا شخص صرف نفل روزے کی نیت کرکے ہی اس دن کا روزہ رکھے گا نہ کہ  کسی اضافی فضیلت کی نیت ۔

اور جو سوال ميں آپ  نے یہ  ذكر كيا  ہے کہ بریلوی علما  عوام کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ستائیس رجب کو شبِ معراج متعین نہیں ہے اور اس رات کو مخصوص عبادات  کیوں کرتے ہیں، تو اس کے جواب کے لیے ان ہی سے مراجعت کی جانی چاہیے۔

"عمدة القاري"میں ہے:

"واختلف في وقت المعراج، فقيل: إنه كان قبل المبعث، وهو شاذ إلا إذا حمل على أنه وقع في المنام فله وجه، وقيل: كان قبل الهجرة بسنة، في ربيع الأول، وهو قول الأكثرين، حتى بالغ ابن حزم فنقل الإجماع على ذلك، وقال السدي: قبل الهجرة بسنة وخمسة أشهر، وأخرجه من طريقه الطبري والبيهقي فعلى هذا كان في شوال، وحكى ابن عبد البر: أنه كان في رجب، وجزم به النووي، وقيل: بثمانية عشر شهرا، حكاه عبد البر أيضا، وقيل: كان قبل الهجرة بسنة وثلاثة أشهر، فعلى هذا يكون في ذي الحجة، وبه جزم ابن فارس، وقيل: كان قبل الهجرة بثلاث سنين حكاه ابن الأثير، وحكى عياض عن الزهري: أنه كان بعد المبعث بخمس سنين، وروى ابن أبي شيبة من حديث جابر وابن عباس، رضي الله تعالى عنهم، قالا: ولد رسول الله، صلى الله عليه وسلم يوم الإثنين، وفيه بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه مات."

(كتاب فضائل الصحابة، باب المعراج،ج:17، ص:20-21، ط:دار إحياء التراث العربي)

"شرح سنن أبي داؤد لابن رسلانؒ"میں ہے:

"حدثنا إبراهيم بن موسى، حدثنا عيسى، حدثنا عثمان - يعني: ابن حكيم - قال: سألت سعيد بن جبير عن صيام رجب، فقال: أخبرني ابن عباس أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يصوم حتى نقول: لا يفطر. ويفطر حتى نقول: لا يصوم.

أي: كان يصوم متطوعا فيكثر ويوالي صيامه حتى يتحدث الناس ونساؤه وخاصته، ويقول القائل: لا يفطر بعد ذلك، فلما سئل ابن عباس عن صيام رجب وكان ‌لم ‌يثبت في صيام فضل (3) بخصوصه، بل هو داخل في عموم تطوعه فإنه كان يتطوع في رجب وفي غيره."

(كتاب الصوم، باب في صوم رجب، ج:10، ص:538، ط:دار الفلاح، مصر)

"فيض القدير للمناويؒ"میں ہے:

"قال ابن الصلاح وغيره: ‌لم ‌يثبت في ‌صوم ‌رجب نهي ولا ندب وأصل الصوم مندوب في رجب وغيره وقال ابن رجب: لم يصح في فضل ‌صوم ‌رجب بخصوصه شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أصحابه."

(حرف الصاد،ج:4، ص:210، ط: المكتبة التجارية الكبري)

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ رجب کے مہینے میں ”تبارک“ اور27 رجب کو روزہ رکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:

”اس امر کا التزام نا درست اور بدعت ہے“۔

(فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشید یہ،ص: 148)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”ماہِ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وار دہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنة“  میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں“۔

(فتاوٰی محمودیہ،باب البدعات و الرسوم، ج:3، ص:281، ط: ادارہ الفاروق کراچی)

'سیرۃ المصطفیٰﷺ' میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"رہا یہ امر کہ (شب معراج) کس مہینے میں ہوئی اس میں اختلاف ہے۔ربیع الاول یا ربیع الاخر یا رجب یا رمضان یا شوال میں ہوئی، پانچ قول ہیں، مشہور یہ ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب میں ہوئی، ہٰذا ما ظہر لی بعد مراجعۃ شرح المواہب، ص:307، ج:1، واللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔"

(ج:1، ص:279-280، ط:کتب خانہ مظہری)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407102435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں