بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سروسز پر عشر لاگو ہے؟


سوال

کیا سروسز پر عشر لاگو ہے، جیسے ڈاکٹر اور وکیل کی فیس  یا لیبارٹری اور پرائیوٹ سکول کی آمدن؟  یہ مد تو دور نبوی میں نہ تھی!

جواب

شرعی اعتبار سے  عشر کا حکم  زمین کی پیداوار کے ساتھ خاص ہے، یعنی عشری زمینوں کی پیداوار (چاہے کھیتی ہو ، پھل ہوں ،سبزی ہو ، ترکاریاں ہوں یا چارہ  ہو ان )میں عشر ادا کرنا لازم ہے، پیداوار کم ہو یا زیادہ ہرصورت میں عشر کی ادائیگی لازم ہے ، اگر زمین ایسی ہو جو سال کا اکثر حصہ بارش کے  پانی سے سیراب ہوتی ہو اس صورت میں پیداوار کا دسواں حصہ  (دس فیصد) اور اگر خود محنت مشقت کرکے نہر وغیرہ سے زمین کو سیراب کیاجاتاہو تو بیسواں حصہ  (پانچ فیصد) نکالا جائے گا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر یا وکیل کی فیس ، اسی طرح لیبارٹری یا اسکولوں کی آمدن پر عشر نہیں ہے، بلکہ ان تمام صورتوں میں حاصل ہونے والی رقم /آمدنی پر شرعی اعتبار سے زکات لازم ہوگی۔عشر اور  زکات میں کئی اعتبار سے شرعاً  فرق ہے ، مثلاً  زکات میں نصاب مقرر ہے ، عشر میں  نصاب کی شرط نہیں، قلیل یا کثیر جتنی بھی پیداوار ہو عشر لازم ہے ، زکات میں سال گزرنا شرط ہے ، عشر میں سال گزرنا شرط نہیں ،بلکہ اگر کوئی فصل سال میں دوبار کاشت کی جاتی ہوتو ہر بارعشر لازم ہے،  وغیرہ۔

ڈاکٹر ،وکیل ، لیبارٹری اور اسکولوں کے مالک  وغیرہ، ان لوگوں کے پاس اپنی آمدنی میں سے اگر  زکات کے نصاب کے برابر رقم بچتی ہوتو ان پر سالانہ ڈھائی فیصد  زکات لازم ہوگی۔اور اگر ان لوگوں کے پاس اپنی آمدنی میں سے  زکات کے نصاب کے برابر رقم نہ بچتی ہو  اور  مالِ تجارت ، سونا ،چاندی بھی نصاب کے بقدر موجود نہ ہوتو ان پر  زکات لازم نہ ہوگی۔

زکات کے وجوب کےنصاب کی تفصیل یہ ہے کہ :

اگر کسی  کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی،  یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی  یا سامانِ تجارت ہو ،  یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ایسے  شخص پر  سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا لازم ہے۔

 واضح ہوکہ زکات کا مدارصرف ساڑھے سات تولہ سونے پراس وقت ہے کہ جب کسی اور جنس میں سے کچھ پاس نہ ہو، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور مالیت بھی ہےتوپھرزکات کی فرضیت کا مدار ساڑھے باون تولہ چاندی پرہوگا۔فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144111200621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں