بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ستر کھولنا گناہ ہے؟


سوال

 کیا ستر کا کھلا رکھنا باعث گناہ ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔ دوسرا کیا لڑکے جو شارٹ پہن کر بازار جاتے ہیں، یا محفل میں بیٹھتے ہیں جس سے ان کے گھٹنے ننگے ہو کر ران تک نظر آتے ہیں، اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرما دیں کہ کیا وعیدیں ہیں؟

جواب

مرد کا ستر ناف کے متصل نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے، ناف سترمیں شامل نہیں، البتہ گھٹنے ستر میں شامل ہیں، اس حصے کا چھپانافرض ہے اور کسی فرض حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرنا سخت گناہ کا کام ہے، کسی کے سامنے اس حصہ بدن کو بلاضرورتِ شرعیہ کھولناجائز نہیں  اور کسی مرد کے لیے دوسرے مرد کے اس حصۂ ستر کو دیکھنا بھی جائز نہیں۔

ہاں! تنہائی میں ضرورت کے وقت  (مثلاً غسل کے لیے) ستر کھولنے کی اجازت ہے، بلاضرورت تنہائی میں بھی ستر نہیں کھولنا چاہیے۔ باقی  اگر کسی معتبر شرعی عذر کی وجہ سے کسی کے سامنے ستر کھولنے کی ضرورت ہو تو بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت اجازت ہوگی۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن الحسن مرسلًا قال: بلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لعن الله الناظر والمنظور إليه".  (الفصل الثالث، ج:2، ص: 936)

ترجمہ: حضرت حسن سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیکھنے والے اور جسے دیکھا جائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

'' حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی مرد کسی دوسرے مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے، کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ستر کی طرف نہ دیکھے ''۔ (مشکاۃ ص:268،قدیمی)

"مجمع الانہر" میں ہے:

''( و ) من ( الرجل إلى ما ينظر الرجل من الرجل ) أي إلى ما سوى العورة ( إن أمنت الشهوة ) وذلك؛ لأن ما ليس بعورة لا يختلف فيه النساء والرجال، فكان لها أن تنظر منه ما ليس بعورة، وإن كانت في قلبها شهوة أو في أكبر رأيها أنها تشتهي أو شكت في ذلك يستحب لها أن تغض بصرها، ولو كان الرجل هو الناظر إلى ما يجوز له النظر منها كالوجه والكف لا ينظر إليه حتماً مع الخوف''.

وفیه أیضاً:

"وينظر الرجل من الرجل إلى ما سوى العورة وقد بينت في الصلاة أن العورة ما بين السرة إلى الركبة والسرة ليستبعورة." (4/200،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں