بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سالی کے ساتھ ناجائز تعلقات سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے؟


سوال

میری شادی 1993 میں ہوئی، بہت اچھی زندگی گزر رہی تھی اور دس سال میں اللہ نے مجھے پانچ بچے عطا کیے، میں اپنے سسرال میں رہتا تھا اور میری چھ سالیاں تھیں، پانچویں نمبر والی سالی  میری طرف راغب ہونے لگی، میں نے اسے سمجھایا بھی، لیکن میں خود بھی اس کی طرف بالآخر راغب ہوگیا اور ہمارے تعلقات ناجائز ہوگئے، اسی وجہ سے وہ مجھے پھر بلیک میل کرنے لگی اور کہتی تھی کہ اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ دو اور مجھے اپنے ساتھ لے کر  کہیں دور چلے جاؤ،  ورنہ میں سب کو بتادوں گی، پھر اس نے میری بیوی کو بھی سب کچھ بتادیا، جب بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے تو میں نے جواب دیا کہ مجھے معاف کردو اور میں خود کشی کرنے لگا، تو میری بیوی نے مجھے روکا اور معاف کردیا، پھر دوبارہ سے ہماری زندگی اچھی گزرنے لگی اور ہم سب نے ایک دوسرے کو معاف کردیا، میں کافی عرصے سے اس سے ملتا بھی نہیں، لیکن میری بیوی ملتی ہے اور ابھی دو مہینے قبل اس نے میری بیوی سے دوبارہ وہی باتیں دہرائی ہیں اور میری بیوی کہتی ہے کہ تمہارے میری بہن سے ناجائز تعلقات تھے، جس کی وجہ سے میں تمہارے لیے حرام ہوگئی ہوں، اب آپ شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ ہم دونوں کا نکاح برقرار ہے یا نہیں اور ہمارا ساتھ رہنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے اپنی سالی کے ساتھ جو ناجائز تعلقات تھے، اس کے حرام و ناجائز ہونے میں شبہ نہیں، اس پر سچے دل سے توبہ و استغفار لازم ہے، تاہم اس فعل کے ناجائز اور حرام ہونے کے باوجود سائل کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوئی، دونوں کا نکاح برقرار ہے۔ سائل خود کو اپنی سالی سے دور رکھے تاکہ مزید فتنے میں مبتلا نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخلاصة: وطئ أخت امرأته لا تحرم عليه امرأته.

(قوله: وفي الخلاصة إلخ) هذا محترز التقييد بالأصول والفروع، وقوله: لا تحرم أي لا تثبت حرمة المصاهرة، فالمعنى: لا تحرم حرمة مؤبدة وإلا فتحرم إلى انقضاء عدة الموطوءة لو بشبهة، قال في البحر: لو وطئ أخت امرأة بشبهة تحرم امرأته ما لم تنقض عدة ذات الشبهة، وفي الدراية عن الكامل: لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى حيضة، واستشكله في الفتح ووجهه أنه لا اعتبار لماء الزاني ولذا لو زنت امرأة رجل لم تحرم عليه وجاز له وطؤها عقب الزنا. اهـ"

(ج:3، ص:34، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وأراد بحرمة المصاهرة ‌الحرمات ‌الأربع: حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها."

(ج:3، ص:108، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات فی النکاح، ط:دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304101008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں