بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا صاحبِ قصیدہ بردہ شریف علامہ بوصیری رحمہ اللہ کے حوالے سے ذکر کیا جانے والا واقعہ درست ہے یا نہیں؟


سوال

قصیدہ بردہ شریف کے بارے میں  جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ "جب حضرت بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کوفالج کی بیماری ہو گئی اور اس بیماری کے علاج سے وہ مایوس ہو گئے، تو انہوں نے قصیدہ بردہ شریف لکھا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خواب میں آئےاور ان کو اپنی چادر اوڑھادی، پھر حضرت بوصیری رحمہ اللہ جب نیند سے بیدار ہوۓ تووہ شفایاب ہوچکے تھے، اور  چادر ان کے پاس تھی" کیا یہ واقعہ درست ہے ؟اگر درست ہے تو واقعہ بھی باحوالہ تفصیلی  طور پربیان فرمادیں ۔

جواب

مذکورہ قصیدہ  چھٹی صدی ہجری کے مشہور ممتاز عالم امام محمد بن سعید شرف الدین البوصیری رحمہ کا  162 اشعار پر لکھا ہوا قصیدہ  ہے،جس کا اصل نام "الكواكب الدرية في مدح خير البرية"ہے، اور" قصیدۃ البُردۃ" اور "القصیدۃ المیمیة" کے نام سے مشہور ہے ،آخر الذکر دو ناموں میں سے" قصیدۃ البُردۃ"کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے،اسی طرح اس قصیدے کا ایک نام  "قصیدۃ البُرءۃ"بھی ہے کیوں کہ  اسی کے ذریعے  سے امام بوصیری رحمہ اللہ کو شفا نصیب ہوئی تھی۔

جہاں تک سوال میں ذکر کردہ واقعے کی   اس قصیدے سے مناسبت کا تعلق ہے تو یہ واقعہ درست ہے  اور کئی ایک کتابوں میں موجود ہے،ذیل میں یہ واقعہ  کچھ وضاحت کے ساتھ  ذکر کیا جارہا ہے:

"بیان کیا جاتا ہے کہ امام بوصیری رحمہ اللہ  پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہو گیا،اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اس  نیک عمل کے واسطے سے اللہ کے حضور  اپنے اس مرض کے لئے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں یہ مشہور قصیدہ لکھا اور خوب رو رو کر اللہ تعالیٰ سےبیماری سے شفاء کی دعا کی، رات کو سوئے تو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت  ہوئی، عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا،جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام سے اتنے خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان  کے کندھوں پر ڈالدی اور پورے بدن پر اپنا دستِ شفاء پھیرا، جس سے  بیماری کے اثرات جاتے رہے اور آپ فوراً شفایاب ہوگئے،صبح بیدار ہوۓ تو حضور علیہ السلام کی جانب سے عطا کی جانے والی چادر آپ کے کندھوں پر موجود تھی،جس سے خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ جب صبح آپ اپنے گھر سے نکلے اور سب سے پہلے جس سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے مجھے بھی سنا دیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کونسا قصیدہ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:أمن تذکر جيران  إلخ ،یہ سن کر  بوصیری رحمہ اللہ نے اپنا وہ قصیدہ انہیں عطا کردیا، اس کے بعد لوگوں میں اس قصیدے کو بڑی شہرت   حاصل ہوئی،جب الملک الظاہر  کے وزیر  بہاء الدین تک اس قصیدے کی اطلاع پہنچی تواس کی ایک نقل تیار کرکے اپنے پاس محفوظ کرلی اور نذر مانی کہ اس قصیدے کو ہمیشہ کھڑے ہوکر،برہنہ پا اور برہنہ سر سُنے گا، اس کے بعد وہ قصیدہ بہاء الدین کے پاس  محفوظ رہا جس کے ثمرات و برکات کا اس نے بخوبی مشاہدہ کیا۔ "

وجۂ تسمیہ:

(1)اس قصیدے کو "قصیدہ بردہ "کہنے کی وجہ  یہ ہے کہ علامہ سعد الدین فارقی رحمہ اللہ  کو آشوبِ چشم کی  بیماری لاحق ہوئی اور بینائی ختم ہونے کے قریب پہنچ گئے، ایک دن خواب میں  کسی  کو کہتے ہوۓسُنا کہ بہاء الدین کے پاس جا کر اس سے "بردہ" لے کر اپنی آنکھوں پر رکھو،ان شاء اللہ شفا نصیب ہو گی،چناں چہ خواب سے بیدار ہوکر بہاء الدین کے پاس پہنچے اور  بہاء الدین سے"بردہ" طلب کیا،جس پر بہاء الدین نے کہا کہ ہمارے پاس "بردہ"نامی کوئی چیز نہیں ،بس علامہ بوصیری رحمہ اللہ کا آپ ﷺ کی شان میں لکھا گیا مدحیہ قصیدہ ہے،جس کے واسطے سے سے ہم اللہ سے شفاء طلب کرتے ہیں،چناں چہ  بہاء الدین سےوہ قصیدہ لے کر سعد الدین فارقی رحمہ اللہ  نے اپنی آنکھوں پر رکھا تو اسی وقت  آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔چوں کہ خواب میں اس قصیدے کو "بردہ"کہا گیا تھا اس لیے اس قصیدے کا نام "قصیدہ بُردہ"  رکھ دیا گیا۔

(2) دوسری وجہ تسمیہ  جو زبان زد خاص و عام ہے  وہ یہ ہے کہ  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر حالتِ منامی میں اپنی چادر مبارک ان کے فالج زدہ جسم پر ڈالدی تھی، اور پھر اپنا دست شفاء بھی پھیرا تھا جس کی برکت سے وہ فوراًشفاء یاب ہوگئے تھے، چوں کہ چادر کو عربی زبان میں بردہ کیا جاتا ہے اور اس قصیدے کی وجہ سے خوش ہوکر امام بوصیری رحمہ اللہ کو آپ ﷺ نے چادر مرحمت فرمائی تھئ اس لیے اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدےکا نام "قصیدہ بردہ" مشہور ہوا۔

اکثر حضرات نے  دوسری وجہ تسمیہ ذکر کی ہے اور یہی زیادہ معروف بھی ہے ،جب کہ صاحبِ کشف الظنون نےدونوں وجوہ ذکر فرما کر  پہلی وجہ تسمیہ کو راجح قرار دیا ہے،لیکن درحقیقت دونوں  کے درمیان کچھ تعارض نہیں ،کیوں کہ جس طرح آخر الذکر صورت میں آپ ﷺ کی  چادر مبارک کی نسبت سے اس قصیدے کو" بردہ" کہا گیا ہے ،اسی طرح پہلی صورت میں  بھی  خواب میں اس قصیدے کو "بردہ "اسی نسبت سے  کہا گیا ہے۔

کشف الظنون میں ہے:

روى أنه أنشأها حين أصابه فالج. فاستشفع بها إلى الله سبحانه وتعالى. ولما نام رأى النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - في منامه، فمسح بيده المباركة، فعوفي.وخرج من بيته أول النهار، فلقيه بعض الفقراء، فقال له:يا سيدي، أريد أن تعطيني القصيدة التي مدحت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم.قال: أي قصيدة تريد؟ فقال التي أولها:أمن تذكر جيران… الخ.فأعطاها له. وجرى ذكرها في الناس، ولما بلغت الصاحب، بهاء الدين، وزير الملك الظاهر، استنسخها، ونذر أن لا يسمعها إلا حافيا، واقفا، مكشوف الرأس، وكان يتبرك بها، هو، وأهل بيته. ورأوا من بركاتها أمورا عظيمة في دينهم ودنياهم.

وسبب شهرتها (بالبردة) (1) أنه أصاب سعد الدين الفارقي رمد عظيم، أشرف منه على العمى، فرأى في منامه قائلا يقول:امض إلى الصاحب: بهاء الدين، وخذ منه (البردة) ، واجعلها على عينيك، تفق إنشاء الله - تعالى -.فنهض من ساعته، وجاء إليه، وقال ما رأى في نومه. فقال الصاحب:ما عندي شيء يقال له: (البردة)، وإنما عندي مديح النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - أنشأها البوصيري، فنحن نستشفي بها.(2/ 1332) فأخرجها، ووضعها سعد الدين على عينيه، فعوفي من الرمد....

وقد يروى في إنشائه لها، وسبب اشتهارها (بالبردة)، وجوه شتى والأقرب إلى القبول ما ذكرت هاهنا.

(2) لكن قال المولى مصنفك، في (شرحه) بعد نقل منامه، ورؤيته النبي عليه الصلاة والسلام: فألقى عليه الصلاة والسلام بردا على عاتقيه، ومسح بيده فلما استيقظ، وجد بدنه صحيحا كله، ووجد ذلك البرد على عاتقيه، ففرح به، فخرج، … فذكر إلى آخر القصة.

ثم قال: أو أنه روي عن بعض الكبراء، أنه أصاب مرض، فطلب القصيدة، فجاء صاحبها إليه، وقرأها، فشفاه الله سبحانه وتعالى من ساعته، فأعطاه بردا فسميت: (بالبردة) تيمنا انتهى والله سبحانه وتعالى أعلم."

(‌‌‌‌باب القاف، قصيدة البردة، الموسومة: بالكواكب الدرية، في مدح خير البرية، 1331/2، ط:ودار إحياء التراث العربي ببيروت)

معجم أعلام شعراء المدح النبوی میں ہے:

"على أن سبب شهرة البوصيري هي قصيدة البردة التي تعتبر أهم القصائد بين المدائح النبوية، إذ أنها أصبحت مصدر الوحي لكثير من القصائد التي أنشئت بعد البوصيري في مدح الرسول صلى الله عليه وسلم. وعن سبب وضعه لهذه القصيدة قال:

«كنت قد نظمت قصائد في مدح رسول الله صلى الله عليه وسلم منها ما كان اقترحه عليّ الصاحب زين الدين يعقوب بن الزبير. ثم اتفق بعد ذلك أن صاحبني فالج أبطل نصفي، ففكرت في عمل قصيدتي هذه فعملتها، واستشفعت بها إلى الله تعالى أن يعافيني، وكررت إنشادها وبكيت، ودعوت وتوسلت. ونمت فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم (في المنام) فمسح على وجهي بيده المباركة، وألقى عليّ بردة، فانتبهت ووجدت فيّ نهضة، فقمت وخرجت من بيتي»."

(محمد بن سعيد البوصيري،ص:353،354، ط:دار ومكتبة الهلال)

العمدۃ فی  إعراب البردۃ میں ہے:

"قافية الميم، وقال يمدح النبي، صلى الله عليه وسلم؛ وهي من أشهر شعره. وهذه القصيدة تعرف بالبردة أو بالبرأة. وقد وفد بها على النبيّ، صلى الله عليه وسلم، وهو مريض، فعوفي من وقته وساعته."

(الدراسة، ‌‌قصيدة البردة، ص:38، ط:دار اليمامة للطباعة والنشر- دمشق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں