بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا صحابی وفات نبی کے بعد مرتد ہوسکتا ہے؟


سوال

کیا حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ صحابہ مرتد بھی ہوگئے تھے ؟اور جو صحابہ مرتد ہوۓ ،کیا وہ بھی جنت میں جائیں گے ؟یا جو مرتد ہوۓ ان میں صحابہ نہیں تھے؟ کیوں کہ جنہوں نے بھی ایمان کی حالت میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھا، وہ تو صحابی بن گیا، تو پھر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ مرتد کیسے ہو سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اولا صحابی کی تعریف کی ضرورت ہے کہ صحابی کس کو کہتے ہیں ،علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ اپنی  کتاب "نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر"  میں صحابی کی تعریف مع قیودات کے اس طرح بیان فرماتے ہیں:

"صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں آپ علیہ السلام سے ملاقات کی ہو،اور ایمان کی حالت میں ہی اس کی  وفات  ہوئی ہو، اگر چہ  درمیان میں رِدّۃ  حائل کیوں نہ ہوگئی ہو۔" (بس اگر  وفات ایمان کی حالت میں ہوئی ہے ،تو ردۃ کی وجہ سے شرف صحابیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا)

آگے اس تعریف کی قیودات  پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:ملاقات عام ہے چاہے دونوں ایک مجلس میں ساتھ بیٹھے ہوں یا ساتھ چلے ہوں یا ایک دوسرے تک پہنچا ہو ،اگر چہ صحابی نے نبی کریم علیہ السلام سے بات نہ کی ہو(صرف ملاقات کی ہو ،تب بھی صحابی کہلائیں گے)اور اس تعریف میں ایک دوسرے کو دیکھنا بھی داخل ہے ۔

اور تعریف میں یہ قید کہ ایمان کی حالت میں ہی ان کی  وفات ہوئی ہو یہ اس شخص کو نکالنے کے لیے جو آپ علیہ السلام پر ایمان تو لایا تھا لیکن بعد میں مرتد ہوگیا،اور اسی ارتداد کی حالت میں اس کی موت ہوئی ،تو وہ صحابی نہیں رہے گا،جیسے عبید اللہ بن جحش اور عبد اللہ بن خطل وغیرہ کہ یہ لوگ آپ علیہ السلام پر ایمان لاکر صحابہ کی صف میں داخل ہوگئے تھے،لیکن پھر مرتد ہوکر اس صف سے خارج ہوگئے  ،اور اسی ارتداد کی حالت میں ان کی موت واقع ہوئی ہے۔

البتہ اگر مرتد ہونے کے بعد انتقال سے پہلے پہلے دوبارہ اسلام لے آئے ،تو وہ صحابی ہی کہلائے گا،چاہے دوبارہ اسلام آپ کی زندگی میں لایا ہو یا آپ کی وفات کے بعد اور چاہے دوبارہ اسلام لانے کے بعد آپ سے پھر ملاقات نصیب ہوئی ہو یا نہیں ،بہر حال وہ صحابی ہیں ۔

اسی طرح ایک اور جگہ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ :صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کوئی بهی مرتد نہیں ہوا،البتہ جٹ قسم کے بدووں کی ایک جماعت ضرور مرتد ہوئی ،جن کی دین میں کوئی نصرت نہیں تهی اور یہ بات مشہور صحابہ میں موجب قدح نہیں ۔

مذکورہ تعریف اور علامہ ابن حجرؒ کے قول سے چند باتیں معلوم ہوئیں :

اول تو یہ ہے کہ کسی صحابی کا مرتد ہونا کوئی بعید نہیں ،بلکہ یہ ممکن ہے اور یہ آپ علیہ السلام کی حیات میں اور آپ کی وفات کے بعد بھی ہوا ہے،البتہ مرتد ہونے کی وجہ سے وہ شخص صحابیت سے نکل جاتا ہے،اوراس کے ارتداد کی وجہ سے شرف صحابیت میں بھی  کوئی فرق نہیں آتا،نیز جو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین ارتداد کے بعد دوبارہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے ،وہ ضرور جنت میں جائیں گے،لیکن جو ارتداد کی حالت میں مر گیا وہ چوں کہ مسلمان ہی نہیں رہا ،چہ جائے کہ صحابی ہوتا ،اسی لیےوہ ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم رہے گا،اور جہنم ہی اس کا ابدی ٹھکانہ ہوگا۔

نزہۃ النظر فی شرح نخبۃ الفکر میں ہے:

"استطردت منه إلى تعريف الصحابي: ما هو؟ فقلت: (وهو: من لقي النبي صلى الله عليه وسلم مؤمنا به، ومات على الإسلام - ولو تخللت ردة في الأصح -).

والمراد باللقاء: ما هو أعم من المجالسة والمماشاة ووصول أحدهما إلى الآخر وإن لم يكالمه، ويدخل فيه رؤية أحدهما الآخر؛ سواء كان ذلك بنفسه أو بغيره.

والتعبير بـ «اللقي» أولى من قول بعضهم: الصحابي من رأى النبي صلى الله عليه وسلم؛ لأنه يخرج ابن أم مكتوم ونحوه من العميان، وهم صحابة بلا تردد، واللقي في هذا التعريف كالجنس.

وقولي: «مؤمنا»؛ كالفصل، يخرج من حصل له اللقاء المذكور، لكن في حال كونه كافرا.

وقولي: «به»؛ فصل ثان، يخرج من لقيه مؤمنا لكن بغيره من الأنبياء، لكن: هل يخرج من لقيه مؤمنا بأنه سيبعث ولم يدرك البعثة؟ فيه نظر!

وقولي: «ومات على الإسلام»؛ فصل ثالث، يخرج من ارتد بعد أن لقيه مؤمنا ومات على الردة؛ كعبيد الله بن جحش، وابن خطل.

وقولي: «ولو تخللت ردة»؛ أي: بين لقيه له مؤمنا به وبين موته على الإسلام؛ فإن اسم الصحبة باق له، سواء رجع إلى الإسلام في حياته أم بعده، سواء لقيه ثانيا أم لا

ويدل على رجحان الأول: قصة الأشعث بن قيس؛ فإنه كان ممن ارتد، وأتي به إلى أبي بكر الصديق أسيرا، فعاد إلى الإسلام، فقبل منه ذلك، وزوجه أخته، ولم يتخلف أحد عن ذكره في الصحابة، ولا عن تخريج أحاديثه في المسانيد وغيرها."

(تعريف الصحابي، ص:١١١، ط:مطبعة الصباح)

فتح الباری میں ہے:

"وقال الخطابي: ‌لم ‌يرتد ‌من ‌الصحابة أحد وإنما ارتد قوم من جفاة الاعراب ممن لانصرة له في الدين وذلك لا يوجب قدحا في الصحابة المشهورين."

(باب الحشر، ج:١١، ص:٣٨٥، ط:دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503100585

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں