کیا رخصتی کیے بغیر حق مہر ادا کرنا پڑتا ہے؟
عقدِ نکاح کے ساتھ ہی شوہر پر حقِّ مہر لازم ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر عقدِ نکاح میں مہر کے لیے کوئی میعاد مقرر نہیں کی گئی ہو تو اس کی ادائیگی میں تاخیر کی گنجائش ہے،بیوی کی طرف سے مطالبہ نہ ہو تو رخصتی تک تاخیر کرنا جائز ہے، اگر کوئی ميعاد مقرر کی گئی ہو تو پھر ميعاد کے مطابق ادائیگی لازم ہوگی۔ اور اگر رخصتي سے قبل طلاق ہوجائے تو نکاح میں مقرر کردہ مہر کا نصف (آدھا) حصہ ادا کرنا لازم ہوگا، البته رخصتی سے پہلے زوجین میں سے کسی کی وفات ہونے کی صورت میں كل مہر كي ادائيگي لازم هوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"و يجب عقيب العقد بلا فصل لما ذكرنا أنه يجب بإحداث الملك، و الملك يحدث عقيب العقد بلا فصل، ولأن المعاوضة المطلقة تقتضي ثبوت الملك في العوضين في وقت واحد وقد ثبت الملك في أحد العوضين وهو البضع عقيب العقد، فيثبت في العوض الآخر عقيبه تحقيقا للمعاوضة المطلقة إلا أنه يجب بنفس العقد وجوبا موسعا، وإنما يتضيق عند المطالبة."
(كتاب النكاح، فصل بيان ما يجب به المهر (2/ 288)،ط. دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية، 1406هـ = 1986م)
لسان الحکام میں ہے:
"و من سمى مهرًا عشرة فما زاد فعليه المسمى إن دخل بها أو مات عنها، وإن طلقها قبل الدخول بها والخلوة فلها نصف المسمى لقوله تعالى: {وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن} الآية، وشرطه أن يكون قبل الخلوة لأنها كالدخول بها عندنا."
(لسان الحكام: الفصل الثالث عشر في النكاح ( ص: 319)،ط.البابي الحلبي - القاهرة،الطبعة: الثانية، 1393 - 1973)
فقط، واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202200877
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن