کیا رخصتی(شادی) کے لیے دس ایام ذی الحجہ میں کوئی ممانعت ہے؟
صورتِ مسئولہ میں رخصتی(شادی) کے لیے دس ایام ذی الحجہ میں کوئی ممانعت نہیں آئی ہے،پورے سال کے ہر روز رخصتی کرنا جائز ہے،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے چار مہینوں کو اشہر حرم قراردیا ہے اوربعض حدیث میں آیا ہےکہ چار مہینے"أَشْہُرُالْحُرُم" حرمت(عظمت اور احترام) والے ہیں، جس میں سے ایک مہینہ ذی الحجہ کا بھی ہے۔
صحیح البخاری میں ہے:
"عن أبي بكرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق السماوات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاثة متواليات: ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان."
(كتاب بدءالخلق، باب ما جاء في سبع أرضين، ج:4، ص:107، رقم الحديث:3197، ط:دار طوق النجاة بيروت)
ترجمہ: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ: زمانہ اب اپنی اسی ہیئت اور شکل میں واپس آگیا ہے جو اُس وقت تھی جب اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت (عظمت اور احترام) والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں، یعنی:ذُوالقعدہ، ذُوالحجہ اور مُحرم، اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے، جو کہ جُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘
حُرمت اورعظمت والے ان چار مہینوں کے خصوصی تذکرے سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ ان ایام میں شادی کی ممانعت،نحوست، بد فالی اور بد شگونی کے تمام خیالات وتوہمات غلط ہیں۔
اور ذی الحجہ مہینے کی فضیلت کے لیے یہ بات بھی کافی ہے کہ اس مہینے میں حج کے تمام ارکان ادا ہوتے ہیں، اسی طرح کسی مہینے میں شادی بیاہ کوممنوع، غلط، منحوس یا معیوب سمجھنا ایک حکمِ شرعی کے زمرے میں آتا ہے اور حکمِ شرعی کے لیے کوئی معتبر شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
الأشباه والنظائر ميں ہے:
"الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم."
(القاعدة الثامنة،ص:60،ط:دارالكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144408101269
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن