بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا رومال باندھنا عمامہ کے قائم مقام ہے؟


سوال

رومال عمامہ(پگڑی) کے طور پر  باندھنے کا کیا حکم ہے؟اگر کوئی مستقل  عمامہ  کی نیت سے رومال باندھے تو اسے عمامہ کی فضیلت حاصل ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ   عمامہ باندھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سننِ عادیہ ( زوائد )میں سے ہے،اتباعِ سنت کی نیت سے عمامہ باندھنا مستحب  اور باعثِ فضیلت ہے، اس کا اہتمام مستحسن عمل ہے،باقی جہاں تک بات ہے   رومال کو بطورعمامہ باندھنے  کی تو ملحوظ رہے کہ شرعی اعتبار سے عمامہ کے  کپڑے کے بارےمیں کوئی تعیین و تحدید نہیں اور نہ ہی کپڑے کی کوئی خاص مقدا ر متعین ہے،  لہذا  بڑا رومال جو بطور عمامہ کے باندھا جاتا ہےاور اس پر عمامہ کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے اور صلحاء کا معمول بھی ہے وہ عمامہ کے حکم میں ہے،نیزبڑے رومال کو مستقل عمامہ کی نیت سے باندھنے سے بھی عمامہ کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔

جمع الوسائل فی شرح الشمائل میں ہے:

"والعمامة بالكسر: معروف، ووهم العصام حيث قال: بالفتح كالغمامة، وقد تطلق على المغفر والبيضة على ما في القاموس، قال ميرك: والمراد بها في ترجمة الباب كل ما يعقد على الرأس سواء كان تحت المغفر أو فوقه أو ما يشد على القلنسوة أو غيرها، وما يشد على رأس المريض أيضا انتهى."

(باب ماجاء في عمامة رسول الله صلي الله عليه وسلم، ج:1، ص:165، ط:المطبعة الشرفية)

وفيه أيضاً:

"وقال الشيخ الجزري في تصحيح المصابيح: قد تتبعت الكتب وتطلبت من السير والتواريخ لأقف على قدر عمامة النبي صلى الله عليه وسلم، فلم أقف على شيء حتى أخبرني من أثق به أنه وقف على شيء من كلام النووي، ذكر فيه أنه كان له صلى الله عليه وسلم عمامة قصيرة، وعمامة طويلة، وأن القصيرة كانت سبعة أذرع، والطويلة كانت اثني عشر ذراعا انتهى.وظاهر كلام المدخل أن عمامته كانت سبعة أذرع مطلقا من غير تقييد بالقصير والطويل، والله أعلم."

(باب ماجاء في عمامة رسول الله صلي الله عليه وسلم، ج:1، ص:168، ط:المطبعة الشرفية)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

”سوال :تولیہ یا رومال بجائے عمامہ کے باندھ کر نماز پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟ اور تولیہ ٹوپی پر باندھنا مکروہ ہے یا نہیں؟ اور اس سے نماز پڑھانا مکروہ ہے یا نہیں؟ اور یہ اعتجار ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص اس پر طعن کرے اور الفاظ  جاہلانہ توہین کے کہے تو اس کو عتاب ہونا چاہئے یا نہیں؟

جواب:تولیہ و رومال ٹوپی پر باندھنا مکروہ نہیں ہے یعنی عمامہ کے طور پر باندھنا اور نماز اس سے مکروہ نہ ہو گی بلکہ اطلاق عمامہ کا اس پر آوے گا اور باندھنے والا مستحقِ ثواب ہو گا، اور یہ اعتجار مکروہ نہیں ہے عصابہ بمعنی عمامہ بھی آتا ہے اور پٹی جو سر پر باندھی جاوے اس کو بھی عصابہ کہتے ہیں ،العصابة تاتي بمعنى العمامة كما في القاموس وشرح شمائل للقارى، عمامہ رسول اللہ ﷺ کی نسبت منقول ہے کہ آپ کے پاس دو عمامے تھے ایک سات ذراع کا اور ایک بارہ ذراع کا لیکن صحیح یہ ہے کہ اس میں کوئی تحدید شرعا نہیں ہے، بقدر ضرورت ہونا کافی ہے۔“

(کتاب الصلاۃ، فصل ثانی :مکروہات ِ صلاۃ، ج:4، ص:88، ط:دار الاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

”سوال : عمامہ کا طول و عرض کتنے گز ہونا چاہیے حاجی لوگ جو رومال لاتے ہیں اس کو عمامہ کے قائم مقام شمار کر سکتے ہیں؟ بینوا توجروا۔

الجواب: عمامہ کی طول و عرض کی کوئی حد متعین نہیں ۔ عرف میں جس کو عمامہ کہتے ہیں اس کو مان لیا جائے ۔ لہذا امام  جو  رومال سر پر باندھتے ہیں اس کو عمامہ کہہ سکتے ہیں۔“

(کتاب الحظر و الاباحۃ ، لباس و زینت ، ج:10، ص:155، ط:دار الاشاعت)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

”رومال کے ساتھ بلا کراہت نماز درست ہے بشرطیکہ رومال کچھ بڑا ہو کم از کم ایک بل سر پر آ جائے تو یہ عمامہ کے حکم میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوٹا عمامہ بھی تھا اور  ایسا رومال معمول صلحاء ہے۔ لہذاکراہت سے خالی ہے۔ “

(باب فی احکام اللباس ، ج:2، ص:761، ط:جمیعت پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں