میں عرصہ دراز سے بکرے پالتاہوں ،جس میں سے چند عیدکے دن قربانی کےلیے ذبح کرتا ہوں اور کچھ بکرے میرے بیٹے مجھ سےمیرے خرید نے کے بعدلےلیتے ہیں ،خریدتے وقت پالنے کا معاہدہ نہیں ہوتا ،لیکن خریدکر متعین کرلیتے ہیں کہ یہ ہمارے بکرے ہیں ،اور باپ کے پاس ہی چھوڑدیتے ہیں کہ آپ ان کو بقر عید تک پالیں ،باپ بیٹے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ،ا س سال کی ابتداء میں انہوں نے خرید نے سے انکار کردیاتھاکہ ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے ،تقریباًتین ماہ قبل میں نے ان بکروں میں سے سات بکرے جو قربانی کے قابل تھے ،ان کو اپنے اور اپنے مرحومین وغیرہ کی جانب سے ذبح کرنے کی نیت کی عید قربان کے موقع پر ،اب میرے بیٹےکہہ رہے ہیں کہ ہمارے پا س پیسہ ہے لہذا آپ ہمیں ان سات بکروں سے دو بکرے فروخت کردو ،شریعت کی روشنی میں بتلائیں کہ مذکورہ صورت کا کیا حکم ہے؟
وضاحت : والدصاحب حیثیت ( مالدار ) ہے۔
صورت مسئولہ میں چوں کہ سائل نے پالنے کےلیے مذکورہ بکریاں خریدی تھیں ،اوراس وقت قربانی کی نیت نہیں تھی ، بعد میں اُ ن میں سے سات بکریوں کے اپنے اور اپنے مرحومین کے طرف سے قربانی کی نیت کی تھی ؛لہذا فقط یہ نیت کرنے سے " کہ میں اِ ن بکریوں کو اپنی طرف سے اور اپنے مرحومین کی طرف سے عیدالاضحی کے موقع پر قربانی میں ذبح کروں گا "مذکورہ بکریاں قربانی کے لیے متعین نہیں ہوئیں ،لہذا سائل اگر اُن کو بیچنا چاہے توبیچ سکتاہے ،لیکن بہتر یہ ہے کہ سائل اِن بکریوں کی قربانی کرے ،کوئی عذر نہ ہو تو مذکورہ جانورں کو فروخت کرنے سے اجتناب کرے، بیٹوں کے لیےدوسرے جانورں کا انتظام کرے ۔
بدائع الصنائع ميں ہے:
"ولو كان في ملك إنسان شاة فنوى أن يضحي بها أو اشترى شاة ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحي بها لا يجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا؛ لأن النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر".
(كتاب التضحية،صفة التضحية ،ج:5،ص:62،ط:دار الكتب العلمية)
في المحيط البرهاني :
"أجمع أصحابنا رحمهم الله: أن الشاة تصير واجبة الأضحية بالنذر بأن قال: لله علي أن أضحي هذه الشاة، وأجمعوا على أنها لا تصير واجبة الأضحية بمجرد النية"
(كتاب الاضحية،الفصل الثاني في وجوب الأضحية بالنذر، وما هو في معناه،ج:6،ص:87،ط:دار الكتب العلمية بيروت لبنان)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144311101360
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن