بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قرآن و حدیث کا غلط ترجمہ کرنے سے کوئی کافر ہوجائے گا؟


سوال

کوئی قرآن وحدیث کا ترجمہ، تفسیر و تشریح غلط کر دے،  اسے آتی نہ ہو تو کیاوہ  بندہ کافر ہو جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ علمِ تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے،  اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے،  نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے۔چناں چہ اس کی ترجمانی اور تفصیل وتوضیح کے لیے ایسی لیاقت اور اہلیت درکار ہے جو اس کلام کی عظمت کے شایانِ شان ہو، ورنہ معمولی لغزش غلط ترجمانی کا مرتکب بناکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں شمار کروا دے گی۔

لہذا قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کو اتنا آسان اور سہل قرار دینا کہ ہر کس و نا کس اس کو بیان کرنا شروع کر دے، درست نہیں، بلکہ اس کے لیے علوم کا ذخیرہ حاصل کرنا اور اس پر پوری دسترس کا ہونا ضروری ہے۔جمہور علماءِ امت کی رائے کے مطابق تفسیرِ قرآن بیان کرنا صرف مطلوبہ استعداد اور صلاحیت کے حامل شخص کے لیے ہی جائز ہے اور یہ صلاحیت تقریباً پندرہ علوم حاصل کرنے کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے، جن میں لغت، صرف، نحو، اشتقاق،  معانی، بیان، بدیع، قراء ات، اصول الدین، اصول فقہ، فقہ، حدیث، علمِ اسبابِ نزول، علمِ ناسخ ومنسوخ اور نورِ بصیرت ووہبی علم وغیرہ شامل ہیں۔

چناں چہ  اس میں رائے زنی کرنے والا احادیث میں وارد وعیدوں کا مستحق ہو گا تاہم جب تک کہ صراحۃ کسی کفر کا ارتکاب نہ کرے، اس وقت تک  کافر نہ ہوگا۔ 

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن جندب، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من قال في كتاب الله عز وجل برأيه، ‌فأصاب فقد أخطأ."

(کتاب العلم، باب الكلام في كتاب الله بغير علم، 5/ 494، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ: جندب بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے (اور اپنی صواب دید) سے کی، اور بات صحیح و درست نکل بھی گئی تو بھی اس نے غلطی کی۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار» . وفي رواية: «من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار» ."

(کتاب العلم، الفصل الثانی، 1/ 79، رقم الحدیث: 234، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے کچھ کہا تو وہ  اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ اور ایک روایت میں ہے: جس نے بغیر علم کے (بغیر سمجھے بوجھے) قرآن کی تفسیر کی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(برأيه) أي: من تلقاء نفسه من غير تتبع أقوال الأئمة من أهل اللغة والعربية المطابقة للقواعد الشرعية، بل بحسب ما يقتضيه عقله، وهو مما يتوقف على النقل بأنه لا مجال للعقل فيه كأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما يتعلق بالقصص والأحكام، أو بحسب ما يقتضيه ظاهر النقل، وهو مما يتوقف على العقل كالمتشابهات التي أخذ المجسمة بظواهرها، وأعرضوا عن استحالة ذلك في العقول، أو بحسب ما يقتضيه بعض العلوم الإلهية مع عدم معرفته ببقيتها وبالعلوم الشرعية فيما يحتاج لذلك ۔۔۔ (فليتبوأ مقعده من النار)  قيل: يخشى عليه من الكفر."

(کتاب العلم، الفصل الثانی، 1/ 309، ط: دار الفکر بیروت)

الإتقان في علوم القرآن  میں ہے:

"وقال الإمام أبو طالب الطبري في أوائل تفسيره: القول في أدوات المفسر: اعلم أن من شرطه صحة الاعتقاد أولاً، ولزوم سنة الدين، فإن من كان مغموصاً عليه في دينه لا يؤتمن على الدنيا فكيف على الدين، ثم لا يؤتمن من الدين على الإخبار عن عالم، فكيف يؤتمن في الإخبار عن أسرار الله تعالى؛ ولأنه لا يؤمن إن كان متهماً بالإلحاد أن يبغي الفتنة ويغر الناس بليه وخداعه."

(‌‌النوع الثامن والسبعون: في معرفة شروط المفسر وآدابه، 4/ 200، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں