بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا کسی غیرعالم دین کےلیے قرآن کےعلاوہ آسمانی کتابوں کی تبلیغ جائز ہے؟


سوال

 کوئی عام آدمی جسے دین کا بہت تھوڑا علم ہو،تو وہ تبلیغ کرنے کی نیت سے دوسرے آسمانی کتابوں کا مطالعہ کرسکتا ہے یا نہیں؟ یہ صرف ایک عالم دین کا ہی کام ہے جو ایک خاص وقت تک اور خاص علوم حاصل کرنے کے بعد کرسکتا ہے ؟ نیز اگر عام آدمی نہیں کرسکتا تو اس کی وجوہات  بتادیجئیے۔

جواب

قرآن ِمجید کے نازل ہونے کے بعد  پچھلی انبیاءکرام علیہم السلام پر نازل شدہ  تمام کتابیں منسوخ ہوگئی ہیں، نیز ان کتابوں میں بعد کے لوگوں نے بہت زیادہ تحریف کردی ہے،ان میں بہت سی ایسی باتیں بھی شامل کر دی گئی ہیں،جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ نہیں اور وہ واضح طور پر دینِ اسلام کے خلاف ہیں، جس کی وجہ سے صحیح اور  غلط کا اندازا  بھی مشکل ہے،  اس لیےکسی غیرعالم دین کےلیے قرآنِ مجید کے علاوہ کسی بھی آسمانی کتاب کی تعلیم وتبلیغ کرنا جائز نہیں ہے،اس وجہ سے بغیر علم کے انہیں پڑھنے سے گمراہیت، بلکہ کفر تک کا اندیشہ ہے، البتہ اگر کوئی عالم دین ہو اسلام  کے اَحکام پر  مکمل عبور حاصل ہو اوروہ ان کتب کامطالعہ اس  لیے کرے؛ تاکہ مخالفین  کے اعتراضات کا جواب دے سکے تو اس کی اجازت ہوگی۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر: (أن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنسخة من التوراة فقال يا رسول الله هذه نسخة من التوراة ‌فسكت ‌فجعل يقرأ ووجه رسول الله يتغير فقال أبو بكر ثكلتك الثواكل ما ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله صلى الله عليه وسلم رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا وأدرك نبوتي لاتبعني)رواه الدارمي."

(‌‌كتاب الإيمان، ‌‌باب الإعتصام بالكتاب والسنة، ‌‌الفصل الثالث، ج:1، ص:68، ط: المكتب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"واختار سيدي عبد الغني ما في الخلاصة، وأطال في تقريره، ثم قال: وقد نهينا عن النظر في شيء منها سواء ‌نقلها ‌إلينا ‌الكفار أو من أسلم منهم."

(‌‌كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:175، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101772

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں