بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جُمادى الأولى 1446ھ 08 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قسطوں پر چیزوں کی خرید و فروخت کرنا سود ہے؟


سوال

قسط پرچیز خریدنا کیا سود ہے؟

جواب

قسطوں پرکسی چیز کی  خرید و فرخت کرنا  تجارت کی ایک جائز قسم ہے، جو عام طور پر نقد سے  قدرے زائد قیمت پر بائع (دوکاندار)  اور مشتری (خریدار )کی باہمی رضامندی  سے طے پاتا ہے،  البتہ اس کے صحیح ہونے کے لیےچند  شرائط کی پابندی کرنا ضروری ہے،  اگر ان شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو سود  لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔

شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

1۔عقد کے وقت  ہی کوئی ایک قیمت متعین کرلی جائے۔

2۔ ادھار  کی مدت  بھی متعین کرلی جائے۔

3۔بیع خلاف جنس کی ہو۔

4۔ قسط میں تاخیر ہونے کی وجہ سے مقرر ہ  قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے ۔

5۔تاخیر کی وجہ سے  جرمانہ وصول کرنے کی شرط عائد نہ کی جائے۔

6۔ ادائیگی سے عاجز ہونے کی وجہ سے سودا منسوخ کرنے پر ادا شدہ رقم  ضبط نہ کی جائے۔

7۔ اور  نہ ہی مبیع  ضبط کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

  تو شرعاً  ایسا معاملہ کرنا عام بیع کی طرح جائز ہو گا   کہ   جس میں بائع اور مشتری کو اختیار ہوتا ہے کہ  باہمی رضامندی سے جتنے میں بھی سودا   طے کر لیں  ۔

سنن الترمذی میں ہے  : 

"وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: ‌أبيعك ‌هذا ‌الثوب ‌بنقد ‌بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما."

(أبواب البيوع، ‌‌باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة، ج : 3، ص : 525، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :

"(اشتراه بألف نسيئة وباع بربح مائة بلا بيان) خير المشتري (فإن تلف) المبيع بتعيب أو تعيب (فعلم) بالأجل (لزمه كل الثمن حالا."

رد المحتار میں ہے :

"(قوله: لزم كل الثمن حالا) لأن الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المرابحة والتولية، ج : 5، ص : 141/42، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں