بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قاتل جنت میں جائے گا؟


سوال

 کیا قاتل جنت میں جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں شدید ترین گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ  تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے جو حقوق اللہ میں سے ہے، وہاں اس میں ایک مسلمان کو قتل کرنا، اس سے اس کو اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ ”حقوق العباد“ سے تعلق رکھتا ہے اور سنگین جرم ہے، شریعت نے اس پر سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔

قرآن مجید میں ہے:

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا  [النساء:  93]

ترجمہ:”  اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا ہے  اور اس پر اللہ تعالیٰ غضب ناک ہوں گے اس کو اپنی رحمت سے دور کردیں گے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے۔“(از بیان القرآن )  

حدیث مبارک میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لزوال الدنيا أهون على الله من قتل رجل مسلم»."

(مشكاة المصابيح (2 / 1031)، كتاب القصاص، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمه:”حضرت عبداللہ ابن عمرو  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے  ارشاد فرمایا: " اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا ختم ہو جانا، ایک مسلمان شخص  کے  قتل ہو جانے سے زیادہ سہل (آسان) ہے ۔ “

لہذا    کسی مسلمان کو ناحق  قتل کرنا انتہائی بڑا گناہ ہے،   تاہم اگر  کسی مسلمان سے  یہ گناہ سرزدہوگیا ہو، اور اس کے بعد  اس نے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرلیا اور مقتول کے اولیاء کو دیت دےکر راضی کرلیا ہو تو  اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ اس کا گناہ معاف فرمادے گا،  لیکن اگر اس نے دنیا میں  صدق دل سے  توبہ واستغفار نہیں کیا  تو  آخرت   میں اس کی جتنی سزا مقرر ہے وہ  سزا کاٹنے کے بعد کلمہ گو ہونے کی وجہ سے   جنت میں جائے گا،  باقی جن آیات اور احادیث میں قاتل کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے آگ کے عذاب کا ذکر ہے اس سے مراد  وہ شخص ہے  جو کسی مسلمان کا نا حق خود بہانے کو حلال سمجھتا  ہو تو یہ کفریہ عقیدہ ہونے کی وجہ سے    وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا  کیا جائے  گا  یا پھر " ہمیشہ ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ وہ  طویل  مدت تک  عذاب میں مبتلا رہے گا۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"قال الطيبي رحمه الله: والظاهر أن المراد من هؤلاء الذين فعلوا ذلك مستحلين له وإن أريد منه العموم، فالمراد من الخلود والتأبيد المكث الطويل المشترك بين دوام الانقطاع له، واستمرار مديد ينقطع بعد حين بعيد لاستعمالهما في المعنيين، فيقال: وقف وقفا مخلدا مخلدا مؤبدا، وأدخل فلان حبس الأبد، والاشتراك والمجاز خلاف الأصل فيجب جعلهما للقدر المشترك بينهما للتوفيق بينه وبين ما ذكرنا من الدلائل."

(6/ 2262، كتاب القصاص، ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144402101801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں