بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قرض پر زکات ہے؟


سوال

کیا قرض پر زکات ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگروہ قرض مراد ہے جو کسی سے لیا گیا ہے،تو ایسی صورت میں اس قرض پر زکات  نہیں ہے،بلکہ اس  تمام قرض لی گئی رقم کو کل مال سے منہا کرنے کے بعد اگر بقیہ  مال نصاب    (ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت) کے برابر یا اس سے زائد ہو تو سال گزرنے کے بعداس مال  پر ڈھائی فیصد کے اعتبار سےزکات واجب ہوگی ،اور اگر بقیہ رقم نصاب سے کم ہوگی تو زکات واجب نہیں ہوگی،یعنی قرض لی گئی رقم نصاب میں  کسی صورت شمار نہیں کی جاۓ گی

اور اگر  مقصودوہ قرض ہے جو کسی کو دیا گیا  ہے،تو ایسی صورت میں  اس قرض پر زکات واجب ہے اور قرض خواہ کو  زکات کا حساب کرتے وقت مذکورہ قرض کی رقم بھی نصاب میں شامل کرنی ہوگی،لیکن اس قرض کی زکات اس وقت ادا کرنی ضروری ہوگی جب وہ قرض وصول ہوجاۓ،اور قرض وصول ہوجانے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکات ادا کرنی ہوگی،تاہم اگر قرض خواہ قرض وصول ہونے سے پہلےہی دیگر مال کے  ساتھ اس قرض کی بھی زکات ادا کر دے تو زکات ادا ہوجاۓ گی پھر قرض وصول ہوجانے کے بعد اس کی سابقہ زکات ادا نہیں کرنی ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا كان على الرجل دين وله مال الزكاة وغيره من عبيد الخدمة، وثياب البذلة، ودور السكنى فإن الدين ‌يصرف ‌إلى ‌مال ‌الزكاة عندنا سواء كان من جنس الدين أو لا."

(كتاب الزكاة،‌ فصل شرائط فرضية الزكاة، الشرائط التي ترجع على من عليه المال، ج:2، ص:8، ط:دارالكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"وعندهما ‌الديون ‌كلها ‌سواء تجب الزكاة قبل القبض وكلما قبض شيئا زكاه قل أو كثر... لو كان له مائتا درهم دين فاستفاد في خلال الحول مائة درهم فإنه يضم المستفاد إلى الدين في حوله بالإجماع وإذا تم الحول على الدين لا يلزمه الأداء من المستفاد ما لم يقبض أربعين درهما، وعندهما يلزمه، وإن لم يقبض منه شيئا."

(كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، 224/2، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی تاتارخانیۃ میں ہے:

"أما علي قولهما فالديون كلها سواء وهي نصاب كله تجب فيه الزكاة قبل القبض إذا حال الحول لكن لا يجب الأداء قبل القبض،وإذا قبض شيئا منه يجب الأداء بقدر ما قبض قليلا كان أو كثيرا."

(كتاب الزكاة، الفصل الثالث عشر في زكات الديون، 246/3، ط:مکتبة زکریا، دیوبند)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں