بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا پراٹھا کھانا سنت ہے؟


سوال

پراٹھاسنت نبوی ہے ؟ ایک صاحب کہتے ہیں پراٹھا کھانا سنت ہے؟

جواب

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھی میں تَر کی ہوئی روٹی  پسند تھی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا  کہ میرا دل چاہتا ہے کہ ہمارے پاس سفید گیہوں کی روٹی ہو جس کو گھی اور دودھ میں تر کیا گیا ہو، چنانچہ ایک آدمی اٹھا اور ایسی روٹی تیار کر کے لے آیا، اس کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس روٹی پر جو گھی لگا ہوا ہے وہ کس برتن میں تھا؟ اس نے کہا کہ گوہ کی کھال کی کپی میں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو میرے سامنے سے اٹھا لو۔

اس روایت  سے معلوم ہوا کہ  گھی میں تر کی گئی روٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغوب تھی، لیکن اس روایت کو امام ابو داؤد نے منکر فرمایا ہے۔

اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے کہ  ایک موقع پر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روٹی بنائی اور اس میں کچھ گھی بھی ڈالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلا بھیجا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لائے اور اس میں سے تناول فرمایا۔

بہرحال! گھی والی روٹی کو پسند کرنا اور اس کا کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن  اس قسم کی روٹی کا کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول نہ تھا، بلکہ اکثر اوقات کھانے کو روٹی بھی دست یاب نہ ہوتی تھی،لہذا   مروجہ  پراٹھوں کو  مسنون کہنا درست نہیں ہو گا۔

سنن أبي داود ت الأرنؤوط (5/ 636):

"عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وددت أن عندي خبزة بيضاء من برة سمراء ملبقة بسمن ولبن، فقام رجل من القوم، فاتخذه، فجاء به، فقال: "في أي شيء كان هذا"، قال: في عكة ضب، قال: "ارفعه" .

قال أبو داود: هذا حديث منكر. قال أبو داود: وأيوب ليس هو السختياني."

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (4/ 444):

"عن أنس بن مالك، قال: صنعت أم سليم للنبي صلى الله عليه وسلم خبزة، وضعت فيها شيئا من سمن، ثم قالت: اذهب إلى النبي صلى الله عليه وسلم فادعه، قال: فأتيته فقلت: أمي تدعوك. قال: فقام وقال لمن كان عنده من الناس: "قوموا" قال: فسبقتهم إليها فأخبرتها، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "هاتي ما صنعت" فقالت: إنما صنعته لك وحدك! قال: "هاتيه" فقال: "يا أنس، أدخل علي عشرة عشرة" قال: فما زلت أدخل عليه عشرة عشرة، فأكلوا حتى شبعوا، وكانوا ثمانين."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202316

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں