بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا پانی بیٹھ کر پینا سنت ہے؟


سوال

 پانی پینے  کا سنت طریقہ بیٹھ کر پینا ہے؟ کیا اس کے بارے میں کوئی حدیث ہے جب کہ بعض احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینا بتایا گیا ہے؟

جواب

عام حالت میں پانی بیٹھ کر پینا سنت ہے، آپ ﷺ کی عام عادت شریفہ یہی تھی، اس لیے بلاضرورت کھڑے ہوکر پانی پینا مکروہِ تنزیہی ہے۔ 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑےہوکرپانی پینےکی ممانعت بھی منقول ہے، اور آپ  ﷺ سے بعض مواقع پر کھڑے ہوکر پانی پینا بھی ثابت ہے، دونوں طرح کی روایات میں تطبیق اس طرح دی گئی ہےکہ عام عادت آپ ﷺ کی بیٹھ کر پانی پینے کی تھی، اور آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع اس لیے فرمایا کہ اس طرح پانی پینا نقصان دہ ہے، اور یہ شفقت اور ہم دردی کے طور پر منع فرمایا تھا، اور جہاں کھڑے ہو کر پینا منقول ہے وہ بیانِ جواز کے لیے  ہے۔

اس لیے  بلاضرورت کھڑے ہوکر پانی پینامکروہِ تنزیہی (خلافِ اولیٰ) ہے، البتہ اگرکسی ضرورت کے تحت مثلاً رش ہو  یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہو یا آبِ زم زم کا پانی یا وضو کا بچا ہوا پانی ہو تو ایسی صورت میں کھڑےہوکرپانی پینا جائز ہوگا، بلکہ آبِ زمزم اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو  کھڑے  ہو کر پینا مستحب ہے، کیوں کہ یہ برکت والا پانی ہے اور ان کو کھڑے ہوکر پینا ثابت بھی ہے۔  اس لیے آبِ زمزم یا وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینے کے علاوہ کسی اور موقع پر اگر بیٹھنے سے کوئی رکاوٹ نہ ہوتو بیٹھ کر پانی پینا چاہیے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (9/ 278):

وَاعْلَم أَنه رُوِيَ فِي الشّرْب قَائِما أَحَادِيث كَثِيرَة. مِنْهَا: النَّهْي عَن ذَلِك، وَبَوَّبَ عَلَيْهِ مُسلم بقوله: بَاب الزّجر عَن الشّرْب قَائِما. وَحدثنَا هداب بن خَالِد حَدثنَا همام حَدثنَا قَتَادَة عَن أنس أَن النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، زجر عَن الشّرْب قَائِما، وَفِي لفظ لَهُ عَن أنس عَن النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، أَنه نهى أَن يشرب الرجل قَائِما. قَالَ قَتَادَة: فَقُلْنَا: فالأكل؟ قَالَ: ذَاك أَشد وأخبث. وَفِي رِوَايَة عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ أَن النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، زجر عَن الشّرْب قَائِما. وَفِي لفظ: نهى عَن الشّرْب قَائِما، وَفِي رِوَايَة لَهُ عَن أبي هُرَيْرَة، قَالَ رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (لَا يشربن أحدكُم قَائِما، فَمن نسي فليستق) . وروى التِّرْمِذِيّ من حَدِيث الْجَارُود بن الْمُعَلَّى أَن النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، نهى عَن الشّرْب قَائِما. وَمِنْهَا: إِبَاحَة الشّرْب قَائِما، فَمن ذَلِك  مَا رَوَاهُ البُخَارِيّ وَبَوَّبَ عَلَيْهِ: بَاب الشّرْب قَائِما، على مَا يَأْتِي، فَقَالَ: حَدثنَا أَبُو نعيم حدنا مسعر عَن عبد الْملك بن ميسرَة عَن النزال، قَالَ: أَتَى عَليّ.، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، على بَاب الرحبة بِمَاء، فَشرب قَائِما، فَقَالَ: إِن نَاسا يكره أحدهم أَن يشرب وَهُوَ قَائِم، وَإِنِّي رَأَيْت النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فعل كَمَا رَأَيْتُمُونِي فعلت) . وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُد أَيْضا، وروى التِّرْمِذِيّ من حَدِيث ابْن عمر، قَالَ: (كُنَّا نَأْكُل على عهد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَنحن نمشي، وَنَشْرَب وَنحن قيام) . وَقَالَ: هَذَا حَدِيث صَحِيح غَرِيب، وروى أَيْضا من حَدِيث عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده. (قَالَ: رَأَيْت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يشرب قَائِمًا وَقَاعِدًا) . وَقَالَ: هَذَا حَدِيث حسن،  وروى الطَّحَاوِيّ، وَقَالَ: حَدثنَا ربيع الجيزي قَالَ: حَدثنَا إِسْحَاق ابْن أبي فَرْوَة الْمدنِي، قَالَ: حَدَّثتنَا عُبَيْدَة بنت نابل عَن عَائِشَة بنت سعد) عَن سعد بن أبي وَقاص، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ يشرب قَائِمًا) . وَرَوَاهُ الْبَزَّار أَيْضًا فِي (مُسْنده) نَحوه، وروى الطَّحَاوِيّ أَيْضًا، فَقَالَ: حَدثنَا ابْن مَرْزُوق، قَالَ: حَدثنَا أَبُو عَاصِم عَن ابْن جريج، قَالَ: أَخْبرنِي عبد الْكَرِيم ابْن مَالك: (قَالَ: أَخْبرنِي الْبَراء بن زيد أَن أم سليم حدثته أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شرب وَهُوَ قَائِم فِي قربَة) . وَفِي لفظ لَهُ: أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم دخل عَلَيْهَا، وَفِي بَيته قربَة معلقَة، فَشرب من الْقرْبَة قَائِمًا. وَأخرجه أَحْمد وَالطَّبَرَانِيّ أَيْضًا. وَقَالَ النَّوَوِيّ: إعلم أَن هَذِه الْأَحَادِيث أشكل مَعْنَاهَا على بعض الْعلمَاء، حَتَّى قَالَ فِيهَا أقوالاً بَاطِلَة، وَالصَّوَاب مِنْهَا: أَن النَّهْي مَحْمُول على كَرَاهَة التَّنْزِيه، وَأما شربه قَائِما فلبيان الْجَوَاز، وَمن زعم نسخًا فقد غلط، فَكيف يكون النّسخ مَعَ إِمْكَان الْجمع، وَإِنَّمَا يكون نسخًا لَو ثَبت التاريح فأنَّى لَهُ ذَلِك؟ وَقَالَ الطَّحَاوِيّ مَا ملخصه: أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَرَادَ بِهَذَا النَّهْي الإشفاق على أمته، لِأَنَّهُ يخَاف من الشّرْب قَائِما الضَّرَر، وحدوث الدَّاء، كَمَا قَالَ لَهُم: أما أَنا فَلَا آكل مُتكئا. انْتهى. قلت: اخْتلفُوا فِي هَذَا الْبَاب بِحَسب اخْتِلَاف الْأَحَادِيث فِيهِ، فَذهب الْحسن الْبَصْرِيّ وَإِبْرَاهِيم النَّخعِيّ وَقَتَادَة: إِلَى كَرَاهَة الشّرْب قَائِما. وَرُوِيَ ذَلِك عَن أنس، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، وَذهب الشّعبِيّ وَسَعِيد بن الْمسيب وزادان وطاووس وَسَعِيد بن جُبَير وَمُجاهد إِلَى أَنه لَا بَأْس بِهِ، ويروى ذَلِك عَن ابْن عَبَّاس وَأبي هُرَيْرَة وَسعد وَعمر بن الْخطاب وَابْنه عبد الله وَابْن الزبير وَعَائِشَة، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُم.

حجة الله البالغة (2/ 293):

ونهى عليه السلام أن يشرب الرجل قائما، وروى أنه صلى الله عليه وسلم شرب قائما أقول: هذا النهي نهي إرشاد وتأديب فإن الشرب قاعدا من الهيآت الفاضلة وأقرب لجموع النفس والري وأن تصرف الطبيعة الماء في محله أما الفعل فلبيان الجواز.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں