بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا پیدائشی معذور آدمی جو نہ بات کرسکتا ہو اور نہ از خود کھا پی سکتا ہو، اس پر روزہ فرض ہے؟


سوال

ایک  شخص پیدائشی معذور ہے ، نہ کھا سکتا ہےخود سے اور نہ  ہاتھ پاؤں ہلا سکتا ہے، نہ باتیں کر سکتا ہے، اس حالت میں ظاہر ہے کہ وہ روزے نہیں رکھ سکتا تو کیا اس کی  طرف سے فدیہ لازم ہوگا یا اس نوعیت میں فدیہ معاف ہے ؟

جواب

 مذکورہ   پیدائشی معذور آدمی جو کھانے پینے میں دوسروں  کا محتاج ہے،از خود کھا،  پی نہیں سکتا  اگر  روزہ رکھنے کی طاقت رکھتاہے، روزہ رکھنا اس کی صحت کے  لیے نقصان دہ نہیں ، صرف کھانے پینے میں دوسروں کا  محتاج ہے تو  اس احتیاج کی بنا  پر روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ، اس پر روزہ رکھنا فرض ہے، کھانے پینے کے سلسلے میں دوسرے لوگوں کو اس کا تعاون کرنا چاہیے۔ البتہ اگر بیماری اور کمزوری کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہیں ، یا  روزہ رکھنے سے  بیماری بڑھنے  کا غالب گمان ہے، یا دیندار ماہر ڈاکٹر  کی طرف سے بیماری کے خدشے کے پیشِ نظر   روزہ رکھنا منع  ہے تو ایسی صورت میں اس کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، البتہ اگر آئندہ بھی  صحت کی امید نہیں  ہے تو روزوں کا فدیہ دینا لازم ہوگا، اگر اس کے پاس فدیہ دینے کی گنجائش نہیں  ہے تو  اللہ تعالی سے درگزر ومعافی کی درخواست کرتا رہے، اگر گنجائش ہوجائے تو فدیہ دے دے، ورنہ استغفار جاری رکھے، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہی امید ہے کہ وہ اس حالت میں معاف فرمائیں گے۔

تحفة الفقہاء میں ہے:

"و الأعذار التي تبيح الإفطار للصائم ستة: السفر، والمرض الذي يزداد بالصوم أو يفضي إلى الهلاك، وحبل المرأة، وإرضاعها إذا أضر بها أو بولدها، والعطاش الشديد، والجوع الذي يخاف منه الهلاك، والشيخ الفاني إذا كان لايقدر على الصوم."

(تحفة الفقهاء: كتاب الصوم (1/ 358)،ط. دار الكتب العلمية، 1405=1984، بيروت)

مراقي الفلاح میں ہے:

"فإن لم يقدر" من تجوز له الفدية "على الفدية لعسرته يستغفر الله سبحانه ويستقيله" أي يطلب منه العفو عن تقصيره في حقه .

(مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح: كتاب الصوم ،باب ما يفسد الصوم،  فصل في العوارض(ص: 260)،ط.  المكتبة العصرية، الطبعة: الأولى، 1425 هـ - 2005 م)

فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144208201107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں