بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پگڑی کا لین دین رشوت ہے


سوال

پگڑی کا لین دین سود میں شما ر ہوگا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ پگڑی شرعاً رشوت کے حکم میں داخل ہے نہ کہ سود کے ؛کیوں کہ پگڑی کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مکان یا دکان کو کوئی مدت طے کیے بغیر کرایہ پر دیتا ہے اور کرایہ کے علاوہ کچھ نقد رقم یک مُشت وصول کرلیتا ہے ،اس نقد رقم کی ادائیگی کے ذریعے کرایہ دار کو اس بات کا حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ اس معاملے کو جب تک چاہے اپنے اختیار سے باقی رکھے،پھر بسا اوقات کرایہ دار اپنا یہ حق دوسرے کرایہ دار کو منتقل کردیتا ہے اور دوسرے کرایہ دار  سے پگڑی کی رقم مع اضافے کے لے کر مکان یا دوکان اس کے حوالے کردیتاہے ،پھر اگر مالکِ مکان یا دکان کسی وقت اپنا مکان یا دکان کرایہ دار سےواپس لینا چاہے تو اس کےذمے لازم ہوتا ہے کہ پہلےکرایہ دار کو اتنی رقم دے جس پر دونوں راضی ہوجائیں،اس کے بعد وہ اپنے مکان یا دکان کو حاصل کرپاتا ہے۔پگڑی کی  یہ   صورت بالکل  درست نہیں ہے اور شرعی اعتبار سے رشوت  کے حکم میں داخل ہے؛کیوں کہ یہ  ایک ایسی رقم ہے جو شرعی اعتبار سےکسی حق کے مقابلے میں نہیں لی گئی؛لہٰذا پگڑی کا لين دين  حرام ، صریح ظلم اور معصیت ہےاور شرعاًاس   طرح نفع حاصل کرنا جائزنہیں ہے۔ 

ألأ شباہ والنظائر میں ہے:

"‌الحقوق ‌المجردة ‌لا ‌يجوز الاعتياض عنها.كحق الشفعة؛ فلو صالح عنه بمال بطلت ورجع به."

(كتاب البيوع، ‌‌بيع المعدوم باطل إلخ... ، ص:178، ط:دار الكتب العلمية)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"فإن الضرر مدفوع؛ لقوله صلى الله عليه وسلم «‌لا ‌ضرر ‌ولا ‌ضرار» في الإسلام."

(كتاب الشفعة، ج:14، ص:91، ط:دارالمعرفة)

وفیہ أیضاً:

"فكان أكل المال بالباطل وهو المعنى في المسألة فإنه يأخذ المال بطريق ‌الرشوة والرشوة ‌حرام وبالصلح لا يحل ما هو ‌حرام."

(كتاب الصلح، ج:20، ص:139، ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اهـ ما في الفتح ملخصا. وفي القنية ‌الرشوة يجب ردها ولا تملك."

(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج:5، ص:362، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"لا يجوز ‌لأحد ‌من ‌المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب."

(كتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير، ج:5، ص:44، ط:دارالكتاب الإسلامي)

الفقہ الإسلامی وأدلتہ میں ہے:

"الحق المجرد أو المحض: هو الذي لا يترك أثراً ‌بالتنازل عنه صلحاً أو إبراء، بل يبقى محل الحق عند المكلف."

(‌‌القسم الثاني: النظريات الفقهية، ‌‌الفصل الأول: نظرية الحق، ‌‌المبحث الثاني ـ أنواع الحق، ‌‌التقسيم الثاني ـ باعتبار محل الحق، الحقوق المجردة وغير المجردة، ج:4،ص:2852، ط:دارالفكر)

کفایت المفتی میں ہے:

"پگڑی کا روپیہ لینا خواہ دوسرے کرایہ دار سے یا مالکِ جائیداد سے لیا جاۓ ناجائز ہے۔مالکِ جائیداد کو تو اپنی جائیدادواپس لینے کا حق ہے اور کرایہ دار کو یہ جائز نہیں کہ وہ جائیداد دوسرے کرایہ دار کو دے اور اس پر پگڑی کی رقم بطور رشوت کے وصول کرے۔

جواب دیگر:یہ پگڑی کے نام سے جو رقم لی جاتی ہےناجائز ہے۔رشوت کے حکم میں ہے."

(کتاب المعاش، زیرِ عنوان:کیا کرایہ دار پگڑی لے کر آگے دکان دے سکتا ہے؟،ج:7، ص:316، ط:دارالإشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"مالک مکان کی اجازت کے بغیر دوسرے کو مکان دینے کا اس کو حق نہیں ہے۔دے گا تو سخت گناہ گار ہوگا او ر مکان سونپنے کے بدلے میں رقم لینا جائز نہیں ہے۔رشوت شمار ہوگی ،جو اس کے لیے حلال نہیں ہے."

(کتاب الإجارۃ،سوال نمبر:325،زیرِ عنوان:مالک مکان اور کرایہ  اور پگڑی کے مسائل، ج:9،10، ص:285، ط:دارالإشاعت)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"اس مروجہ پگڑی کے بارے میں علماء کرام نے عدمِ جواز کا قول فرمایا ہے ؛کیوں کہ یہ نہ تو نزول عن الحق ہے اور نہ اجرتِ معجلہ ہے، بلکہ یہ حقِ مجرد کی فروخت ہے جو کہ ناجائز ہے اور پیشگی کی رقم رشوت ہے جو کہ نصِ قطعی کی رُو سے حرام ہے، لہٰذا مروجہ پگڑی کی رسم  شرع کے خلاف ہے."

(کتاب البیوع، زیرِ عنوان :کرایہ کی دوکان یا مکان پر پیشگی رقم (پگڑی) لینے کی شرعی حیثیت،ج:6،ص:35، ط:مکتبہ سید احمد شہید اکوڑہ خٹک )

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504101240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں