بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت نبی ہو سکتی ہے؟


سوال

ابھی حال ہی میں ایک عورت نے نبي ہونے کا دعوی کیا   ہے،میراسوال ہے کہ:

  1.   کیا عورت نبی ہو سکتی ہے؟
  2. کیاتبلیغ عورت کا منصب ہے؟
  3.    جو عورت تبلیغ کواپنا منصب سمجھتی ہو،اس کے لیے یہ عقیدہ رکھنا کیسا ہے ؟
  4. کیا اس کا  یہ عقیدہ اہل سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف ہے؟

جواب

1:کسی بھی عورت کے لیے نبی ہو نے کا دعوی کرنا درست نہیں ، ایک وجہ تو یہ  ہے کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی اور رسول ہیں، آپ ﷺ کے بعد  قیامت تک کوئی دوسرا نیا رسول یا نبی  نہیں آئے گا،  دوسری وجہ یہ ہے کہ   قرآن مجید میں اللہ تبار ک وتعالی  کاارشاد ہے کہ  ہم نے  صرف مردوں   ہی کو پیغمبر بنایا تھا  ،لہذا  خواتین میں سے کسی کو بھی نبی نہیں  بنایا ۔

2:  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت چھپانے کی چیز ہے،  جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک میں لگ جاتا ہے"، نیز اللہ تعالی نے   قرآنِ پاک میں عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا، لہذا   اسلام کے  ابتدائی دور میں عورتوں میں دین کی دعوت وتبلیغ کی ضرورت موجودہ دور کی ضرورت سے زیادہ تھی، اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابۂ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین  سے  کسی عورت کو تبلیغ کے لیے بھیجنا ثابت نہیں ہے؛لہذا عورت کے لیے  تبلیغ کو اپنا منصب  سمجھنا درست نہیں ہے۔خواتین کا شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے وعظ و نصیحت کی غرض سےعلاقے  کے کسی گھر میں جمع ہونا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے اور بزرگوں کا بھی یہی طریقہ چلا آرہا ہے، پس اگر خواتین باپردہ ہوکر وعظ و نصیحت سننے کے لیے علاقے کے کسی گھر میں جمع ہوتی ہوں تو یہ جائز ہے۔

3:  اس سول  کا جواب دوسرے سوال کے جواب  کے تحت گزر گیا۔

4: سائل کی اس عقیدے سے مراد اگر نمبر تین  ہے، یعنی جو عورت تبلیغ کو اپنا منصب سمجھتی ہو اس کا یہ عقیدہ اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہے یا نہیں؟ تو  یہ نظریہ درست نہیں ہے، تاہم اس  کا تعلق عقائد سے نہیں ہے۔

اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

"وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ."﴿الأنبياء: ٧﴾

ترجمہ:"اور ہم نے آپ سے قبل صرف  آدمیوں  ہی کو پیغمبر بنایا جن کے پاس ہم وحی بھیجا کر تے تھے ۔"( بیان القرآن )

"صحیح بخاری" میں ہے:

"عن أبي سعيدٍ الخُدريِّ - رضي الله عنه - قال: قالتِ النِّساءُ للنبيِّ صلى الله عليه وسلم : غَلَبَنا عليك الرجال، فاجعلْ لنا يومًا من نفسك؛ فوعدهنَّ يومًا لقيهنَّ فيه، فوعظهنَّ وأمرهنَّ؛ فكان فيما قال لهنَّ: ((ما مِنكنَّ امرأةٌ تُقدِّم ثلاثةً من ولدِها إلا كان لها حجابًا من النار))، فقالت امرأة: واثنينِ؟ فقال: ((واثنين))". (كتاب العلم، باب: هل يجعل للنسآء يوم علي حدة في العلم)".

"عمدة القاری"میں ہے:

"قال النووي: فيه استحباب وعظ النسآء و تذكيرهن الآخرة و أحكام الإسلام و حثهن علي الصدقة، و هذا إذا لم يترتب علي ذلك مفسدة أو خوف فتنة علي الواعظ أو الموعوظ و نحو ذلك".

( ٢/ ١٢٤، ط: دار إحياء التراث العربي)

حدیث  شریف میں ہے :

"عن أبي سعيد الخدري قالت النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: ‌غلبنا ‌عليك ‌الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن".

(کتاب العلم،ھل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم،32/1،السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

تفسير القرطبی ميں ہے:

"قوله تعالى: (وقرن في بيوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى) فيه أربع مسائل... الثانية- معنى هذه الآية الأمر بلزوم البيت، وإن كان الخطاب لنساء النبي صلى الله عليه وسلم فقد دخل غيرهن فيه بالمعنى. هذا لو لم يرد دليل يخص جميع النساء، كيف والشريعة طافحة بلزوم النساء بيوتهن، والانكفاف عن الخروج منها إلا لضرورة، على ما تقدم في غير موضع. فأمر الله تعالى نساء النبي صلى الله عليه وسلم بملازمة بيوتهن، وخاطبهن بذلك تشريفا لهن، ونهاهن عن التبرج، وأعلم أنه فعل الجاهلية الأولى."

(سورة الأحزاب، ج:14، ص:178-179، ط:دار الكتب المصرية)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"{يا نساء النبي لستن كأحد من النساء إن اتقيتن فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض وقلن قولا معروفا (32) وقرن في بيوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى وأقمن الصلاة وآتين الزكاة وأطعن الله ورسوله إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا (33) واذكرن ما يتلى في بيوتكن من آيات الله والحكمة إن الله كان لطيفا خبيرا } .

هذه آداب أمر الله تعالى بها نساء النبي صلى الله عليه وسلم، ونساء الأمة تبع لهن في ذلك ... 

وقوله: {وقرن في بيوتكن} أي: الزمن بيوتكن فلا تخرجن لغير حاجة. ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن وهن تفلات" وفي رواية: "وبيوتهن خير لهن"

وقال الحافظ أبو بكر البزار: حدثنا حميد بن مسعدة  حدثنا أبو رجاء الكلبي، روح بن المسيب ثقة، حدثنا ثابت البناني عن أنس، رضي الله عنه، قال: جئن النساء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن: يا رسول الله، ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى، فما لنا عمل ندرك به عمل المجاهدين في سبيل الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قعد -أو كلمة نحوها -منكن في بيتها فإنها تدرك عمل المجاهدين  في سبيل الله".

ثم قال: لا نعلم رواه عن ثابت إلا روح بن المسيب، وهو رجل من أهل البصرة مشهور.

وقال البزار أيضا: حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، عن مورق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون بروحة ربها وهي في قعر بيتها.

ورواه الترمذي، عن بندار، عن عمرو بن عاصم، به نحوه ."

(سورة الأحزاب، ج:6، ص:408-409، ط:دار طيبة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"کوئی شخص اپنے محلہ کی غیر محرم عورتوں کو پردہ میں رکھ کر حیض و نفاس کا مسئلہ، نماز روزہ پاکی ناپاکی کے بارے میں وعظ و نصیحت سنائے اور بتلائے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: جائز ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت ثابت ہے، لیکن اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو احتیاط کرنا چاہیے"۔

(کتاب العلم،387/3، دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411102665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں