ایک عورت کا حق مہر سات تولے سونے تھا تو اس عورت نے خاوند کی اجازت سے سونا بیچ کر اُن کے پیسے اپنے بھائی کو کاروبار کے لیے دیے، اب خاوند کا (باپ ) ان پیسوں کو مانگ رہا ہے، تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا از روئے شریعت خاوند ان پیسوں کو اپنے باپ کو دے سکتا ہے یا نہیں ؟نوٹ اگرخاوند یہ پیسے باپ کو نہ دے توباپ کے ناراض ہونے کا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ بیوی کو جو چیز مہر میں دی جاتی ہے اُس کی مالک عورت ہی ہوتی ہے، اس چیز میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کسی قسم کے تصرف کا کوئی حق حاصل نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون نے اپنے مہر کا جو سونا بیچا ہے اُس سونے کی رقم کی مالک وہ خود ہے، کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں، لہذا اس کے خاوند اور خاوند کے والد کو نہ تو اس کے مطالبے کا کوئی حق ہے، اور نہ اس بات پر اُن کا ناراض ہونا درست ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے:
"قال رسول الله صلى اللہ علیه و سلم: ألا لاتظلموا، ألا لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه."
(مشکوٰۃ، ج:1، ص:255، ط:قدیمی)
ترجمہ: خبردار! اے مسلمانو! ظلم نہ کیا کرو، اور یاد رکھو کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر دوسرے شخص کے لیے حلال نہیں ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206201421
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن