بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شرعا عورت کو بریزر پہننے کی اجازت ہے؟


سوال

عورت بریزر  کیوں استعمال کرتی ہے،  کیا اسلام میں عورت کو بریزر پہننے کی اجازت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ لباس کے معاملہ میں شریعتِ مطہرہ نے عورت کو کسی خاص وضع قطع کا پابند نہیں کیا،  بلکہ اس سلسلہ میں بعض  عمومی تعلیمات اور کچھ حدود و قیود مقرر کرنے پر اکتفاء کیا ہے، لہذا  جو لباس ان تعلیمات کے مطابق ہو اور اس میں شریعت کی بیان کردہ حدود سے تجاوز نہ کیا جائے شرعاً اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ ان تعلیمات میں بنیادی چیز یہ ہے کہ عورت کا لباس اس کے ظاہری اعضاء کو چھپانے والا ہو، اتنا چھوٹا، باریک یا چست نہ ہو کہ اس سے  جسم کے جن اعضاء کا چھپانا واجب ہے وہ یا ان کی ساخت ظاہر ہو جائے۔

صورتِ  مسئولہ میں مسلمان عورت اگر بریزر کا استعمال  سینے کے پردے کے لیے کرتی ہے تاکہ سینے کے ابھار کے خدو خال ظاہر نہ ہوں تو یہ شریعت کی نظر میں ایک اچھا مقصد ہے اور اس  مقصد  کے تحت بریزر کا استعمال نہ صرف یہ کہ شرعاً جائز ہے،  بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"وبما أن الإنسان جبل على حب التنوع في أنواع اللباس والطعام، فإن الإسلام لم يقصره على نوع دون نوع، ولم يقرر للإنسان نوعا خاصا، أو هيئة خاصة من اللباس ولا أسلوبا خاصا للمعيشة، وإنما وضع مجموعة من المبادئ والقواعد الأساسية يجب على المسلم أن يحتف بها في أمر لباسه، ثم تركه حرا في اختيار ما يراه من أنواع الملابس، وليس هناك ما يمنع التطور في أنواع اللباس ما دام الإنسان يحتفظ بهذه المبادئ ويفي بشروطها الواجبة.

فمن مقدمة هذه المبادئ أن اللباس يجب أن يكون ساترا لعورة الإنسان...  والمبدء الثاني:  أن اللباس إنما يقصد به الستر والتجمل ... والمبدء الثالث: أن اللباس الذي يتشبه به الإنسان بأقوام كفرة لا يجوز لبسه لمسلم إذا قصد بذلك التشبه بهم".

(كتاب اللباس والزينة، 76/4، ط: دار إحياء التراث العربي)

صحیح مسلم میں ہے:

"125 - (2128) حدثني ‌زهير بن حرب ، حدثنا ‌جرير ، عن ‌سهيل ، عن ‌أبيه ، عن ‌أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « صنفان من أهل النار لم أرهما: قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات، ‌مميلات مائلات، رءوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا ."

(‌‌‌‌كتاب اللباس والزينة، باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات، 6/ 168 ط :دار الطباعة العامرة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505102093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں