بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نیک لوگ جلدی مرجاتے ہیں؟


سوال

اچھے لوگوں کو اللہ تعالی جلدی کیوں بلا لیتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی اورموت دونوں اللہ تعالی  کی قدرت میں  ہیں،انسان چاہے نیک ہو، یا گناہ گارہو، دونوں کی زندگی موت کا وقت اللہ تعالی کے ہاں مقرر ہوتا ہے، اور اس  مقررہ وقت سے نہ ایک سیکنڈتقدیم ہوتی ہے، اور نہ ہی تاخیر،اکثرنیک لوگ  ایسے ہوتے ہیں ، جن کے لیے اللہ تعالی کے ہاں  لمبی زندگی مقدر ہوتی ہے، کہ وہ  لمبی زندگی گزارتے ہیں ، جس میں ان کو مزید نیک اعمال کی توفیق نصیب ہوتی ہے، اور  کبھی اللہ تعالی کی طرف سےان کے لیے  مختصر زندگی مقدرہوتی ہے، تووہ جلدہی دنیاسے رخصت ہوجاتے ہیں ، اسی طرح اکثر لوگ جو گناہ گار اور اللہ تعالی کے نافرماں ہوتے ہیں،  لیکن اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لیے لمبی زندگی مقدر ہوتی ہے، تو وہ طویل زمانہ گزارتے ہیں ،اور کبھی اللہ تعالی کی طرف  سے ان کی مقدر میں مختصر زندگی لکھی ہوتی ہے، تو وہ دنیاسے جلدہی رخصت ہوتے ہیں، لہذاکسی انسان کا جلدی مرجانا اس کی نیک اعمالی کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ محض تقدیری معاملہ ہے۔

نیز  صرف نیک لوگوں کاہی  جلدی مرجانا قرآن وسنت میں کہیں ثابت نہیں ہے، البتہ احادیثِ  مبارکہ میں یہ ہے  کہ قیامت کے قریب نیک لوگ پہلے یکے بعد دیگرے چلے (مر)  جائیں گے ، اور صرف گھٹیا جَو اور گھٹیا کھجورکی طرح لوگ رہ جائیں گے ،جن کی اللہ تعالی کو کوئی پرواہ نہیں  ہوگی ، اور انہیں پر قیامت آئے گی۔

تفسیر طبری میں ہے:

"(فإذا جاء أجلهم) ، يقول: فإذا جاء الوقت الذي وقّته الله لهلاكهم، وحلول العقاب بهم = (لايستأخرون ساعة و لايستقدمون) ، يقول: لا يتأخرون بالبقاء في الدنيا، و لايُمَتَّعون بالحياة فيها عن وقت هلاكهم وحين حلول أجل فنائهم ساعة من ساعات الزمان  (و لايستقدمون) ، يقول: و لايتقدّمون بذلك أيضًا عن الوقت الذي جعله الله لهم وقتًا للهلاك."

(سورۃ الاعراف،آیت:34،ج:12،ص:405،ط:دار التربیۃ والتراث)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"و عن مرداس الأسلمي - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «يذهب الصالحون، الأول فالأول، وتبقى حفالة كحفالة الشعير أو التمر، لايباليهم الله بالة ... قال النبي) وفي نسخة صحيحة: رسول الله (صلى الله تعالى عليه وسلم: " يذهب ") أي: يموت (" الصالحون الأول فالأول ") بالرفع بدل من " الصالحون "، وبالنصب حال أي واحدا بعد واحد، أو قرنا بعد قرن، (" وتبقى حفالة ") بضم الحاء المهملة، وفي نسخة حثالة بالثاء المثلثة بدل الفاء، ومعناهما: الرديء من الشيء والتنكير في حفالة للتحقير (" كحفالة الشعير ") أي: نخالته (" أو التمر ") أي: دقله، قال الطيبي - رحمه الله -: الفاء للتعقيب، ولا بد من التقدير، أي: الأول منهم، فالأول من الباقين منهم، وهكذا ينتهي إلى الحفالة مثل الأفضل فالأفضل، قال القاضي: الحفالة رذالة الشيء وكذا الحثالة، والفاء والثاء يتعاقبان كثيرا، (" لا يباليهم الله ") أي: لا يرفع لهم قدرا، ولا يقيم لهم وزنا (" بالة ") أي: مبالاة."

(كتاب الرقاق،باب تغر الناس،ج:8،ص:3361،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101842

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں