بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 جُمادى الأولى 1446ھ 05 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نقد مال پر رکاۃ واجب ہوتی ہے؟ جب کہ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہو


سوال

 اگر نقدی مال 10 لاکھ روپے ہو۔کوئی ذریعہ روزگار بھی نہ ہو آدمی شادی شدہ ہو 4 بچے ہوں۔کیا اس پر زکوٰۃ فرض ہے؟ پہلے دوکان تھی اب وہ بھی نہیں۔راہ نمائی فرما دیں!

جواب

 زکاۃ کا نصاب سونے کے اعتبار سے ساڑھے سات تولہ  ہے ، اور چاندی کے اعتبار سے ساڑھے باون تولہ ہے، اگر کسی  كي ملكيت ميں ضرورت سے زائد یعنی قرض وغیرہ کو منہا کرنے کے بعد اتنی رقم موجود ہو جو ساڑ ھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہو اور اس رقم پر قمری مہینوں کے اعتبار سے سال بھی گزرجائےتو اس رقم پر ڈھائی فیصد زکاۃ واجب  ہوتی ہے۔

مذکورہ  تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ  شخص  کے پاس جو رقم ہے  سالانہ وما ہانہ  اخراجات  جو آپ کے ذمہ میں  سابقہ زمانے میں لازم ہوچکے ہیں مثلًا سال پورا ہونے سے پہلے   کے گھریلو اخراجات، یوٹیلیٹی بلز، بچوں کے تعلیمی اخراجات وغیرہ  دین و قرض کی صورت میں لازم ہوچکے ہوں تو  اس رقم پر  زکاۃ لازم نہیں ہے، ان اخراجات کو مذکورہ رقم سے منہا کیا جائے گا  ، کیوں کہ یہ ضروریات اصلیہ میں  داخل ہے۔البتہ  سال مکمل ہونے کے بعد آئندہ ہونے والے  اخراجات   منہا نہیں کیے  جائیں گے  ۔

لہذا واجب الادا     اخراجات  مثلا قرض وغیرہ کو منہا کرنے کے بعد  جو رقم بچتی ہے، اگر نصاب (ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے بقدر) تک پہنچتی ہے، اور سال بھی گزرچکا ہے تو اس رقم پر ڈھائی فیصد زکاۃ فرض ہے۔

در مختار  میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبه للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك،،، (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج، أو للعبد ولو كفالة أو مؤجلا، ولو صداق زوجته المؤجل للفراق ونفقة لزمته بقضاء أو رضا، بخلاف دين نذر وكفارة وحج لعدم المطالب،ولا يمنع الدين وجوب عشر وخراج وكفارة (و) فارغ (عن حاجته الاصلية) لان المشغول بها كالمعدوم.وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه، أو تقديرا كدينه(نام لو تقديرا) بالقدر على الاستنماء ولو بنائبه."

(حاشية ابن عابدين ت: شيخ حسام الدين الفرفور. كتاب الزكاة، ج5 ص422)

المحيط البرهاني میں ہے:

"مال الزكاة الأثمان، وهو: الذهب والفضة وأشباهها، والسوائم وعروض التجارة،،،الزكاة واجبة في الذهب والفضة، مضروبة كانت أو غير مضروبة، نوى التجارة أو، لا إذا بلغت الفضة مائتي درهم، والذهب عشرين مثقالاً."

(المحيط البرهاني: كتاب الزكاة الفصل الثالث في بيان مال الزكاة ج2 ص240. دار الكتب العلمية)

فتاوي هنديه ميں ہے:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة، وكذا طعام أهله وما يتجمل به من الأواني إذا لم يكن من الذهب والفضة، وكذا الجوهر واللؤلؤ والياقوت والبلخش والزمرد ونحوها إذا لم يكن للتجارة، وكذا لو اشترى فلوسا للنفقة كذا في العيني شرح الهداية."

(الفتاوى الهندية، كتاب الزكاة/ باب تفسيرها وصفتها و شرائطها. ج1 ص190)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508102427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں