اگر کوئی شخص جو مسلمان ہو اور دینی مدرسے سے فارغ ہو ،وہ اپنے کاروبار کی لیے فرض نماز چاہے وہ جمعہ کی ہو یا عید کی چھوڑ دے، کیا یہ مسلمان باقی رہے گا؟ اور اس کے ساتھ شریک ہو کر کاروبار کرنا کیسا ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں مذکور شخص اگر سستی کی وجہ سے نماز چھوڑ دیتا ہے تو اس صورت میں وہ اگرچہ کافر نہیں ہوگا، اس کا اسلام باقی رہے گا البتہ ایسا شخص فاسق کہلائے گا، اور دین پڑھ کر اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دوہرا گناہ ہوگا،البتہ اگر نماز کو اس عقیدے کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے کہ نماز فرض ہی نہیں تو اس صورت میں کافر ہو جائے گا۔
2۔بے نمازی مسلمان کے ساتھ شریک ہو کر کاروبار کرنا مناسب نہیں ہے، کیوں کہ اس کی نحوست کا اثر کاروبار پر پڑے گا،ہو سکتا ہے اس نحوست کی وجہ سے پورا کاروبار ہی تباہ ہو جائے۔
تفسیر مظہری میں ہے:
"مثل الذين حملوا التوراة علموها وكلفوا بالعمل بها ثم لم يحملوها اى لم يعملوا بما فيها ولم ينتفعوا بها كمثل الحمار يحمل أسفارا كتبا من العلم يتعب فى حملها ولا ينتفع بها وجملة يحمل حال من الحمار والعامل فيه معنى المثل او صفة له إذ ليس المراد الحمار المعين نظيره ولقد امر على اللئيم يسبنى وهكذا كل عالم لا يعمل بعلمه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم انى أعوذ بك من علم لا ينفع."
(سورة الجمعة، الآية:٥، ج:٩، ص:٢٧٦، ط:مكتبة الرشدية)
شرح النووی علی مسلم میں ہے:
"وتأولوا قوله صلى الله عليه وسلم بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة على معنى أنه يستحق بترك الصلاة عقوبة الكافر وهي القتل أو أنه محمول على المستحل أو على أنه قد يؤول به إلى الكفر أو أن فعله فعل الكفار والله أعلم."
(كتاب الإيمان، باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة، ج:٢، ص:٧٢، ط:دار إحياء التراث العربي)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده."
(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج:٨، ص:٣١٤٧، ط:دارالفكر)
الفقہ الاسلامی و أدلتہ میں ہے:
"من تركها تكاسلا وتهاونا فهو فاسق عاص."
(القسم الأول: العبادات، الفصل الأول، ج:١، ص:٦٥٩، ط:دار الفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605101942
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن