بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ناحق کسی کا مال کھانے والے کے لیے قیامت کے دن حافظِ قرآن سفارش کرسکتاہے؟


سوال

حدیث شریف میں ہے کہ جس نے قرآن مجید حفظ کیا ہو،تووہ  دس آدمیوں کی سفارش کر ے گا ،تو کیا حافظِ قرآن ایسے شخص کی سفارش بھی کرسکتا ہے جس نے کسی کا مال ناحق کھایاہو ؟

جواب

 وہ مسلمان جس کے ذمہ کسی کا حق ہو اور وہ اُس نے ادا کیا نہ ہو اور نہ ہی صاحبِ حق نے اُنہیں اپنا حق معاف کیا ہو ، قیامت کے دن اُن کی نیکیاں صاحبِ حق کو اُس کے حق کے بدلے میں دی جائیں گی، پھر بھی اگر اس کا حق پورا نہ ہو تو  اُس صاحبِ حق کے گناہ اس پر ڈالے جائیں گے، اس کے بعد اگر اُس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو جنت میں داخل کیاجائے گا اور اگر گناہ زیادہ ہوں گے تو پھر وہ جہنم  کا مستحق ہوگا، البتہ اگرایسی صورت میں  حافظِ قرآن یا کوئی اور جس کو اللہ تعالٰی نے سفارش کرنے کی اجازت دی ہواُس کی سفارش کرلے تو وہ جہنم کے بجائے جنت میں داخل کیا جائے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌قرأ ‌القرآن ‌فاستظهره فأحل حلاله وحرم حرامه أدخله الله به الجنة وشفعه في عشرة من أهل بيته كلهم قد وجبت له النار."

(كتاب فضائل القرآن، الفصل الثاني،ج:1،ص:660،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" جس شخص نے قرآن مجید پڑھا،  پھر اسے یاد کیا اور اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام جانا تو اللہ تعالیٰ اسے ابتدا ہی میں جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کے ان دس عزیزوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرمائے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی (یعنی وہ  فاسق اور مستحق عذاب ہوچکے ہوں گے)۔"

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن علي - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من قرأ القرآن (فاستظهره) أي استظهر حفظه بأن حفظه عن ظهر قلبه أو استظهر طلب المظاهرة وهي المعاونة أو استظهر إذا احتاط في الأمر وبالغ في حفظه، والمعنى: من حفظ القرآن وطلب منه القوة أو المعاونة في الدين (فأحل حلاله وحرم حرامه) أو احتاط في حفظ حرمته أو امتثاله، وقيل: جميع هذه المعاني مرادة هنا بدليل الفاءين، وقول ابن حجر: أي اعتقدهما مع فعله الأول وتركه للثاني غير صحيح باعتبار تقييده بفعل الأول، فتأمل (أدخله الله الجنة) ، أي في أول الوهلة (وشفعه) بالتشديد، أي قبل شفاعته، وقال ابن الملك: جعله شفيعا (في عشرة من أهل بيته كلهم) ، أي كل العشرة (قد وجبت له النار) وإفراد الضمير للفظ الكل، قال الطيبي: فيه رد على من زعم أن الشفاعة إنما تكون في رفع المنزلة دون حط الوزر بناء على ما افتروه أن مرتكب الكبيرة يجب خلوده في النار ولا يمكن العفو عنه، والوجوب هنا على سبيل المواعدة."

(كتاب فضائل القرآن، الفصل الثاني، 1476/4، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں