بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مطلقہ عورت کا سابقہ سسر طلاق کے بعد بھی اس کا محرم ہی رہتا ہے؟


سوال

 کیا ایک مطلقہ عورت کا سابقہ سسر  طلاق کے بعد بھی اس کا محرم ہی رہتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ مطلقہ خاتون اپنے سابقہ سسر سے پردہ نہیں کرے گی؟ کیا اس خاتون کے ساتھ اس کے سابقہ سسر بطور محرم سفرِ حج پر جا سکتے ہیں؟ اسي طرح  جس مرد نے اپنی بیوی کو طلاق دی، کیا وہ اپنی سابقہ ساس کا اسی طرح محرم ہے؟

جواب

واضح رهے كه  نکاح کے بعد میاں بیوی میں سے ہر ایک  کے والدین دوسرے کے  ہمیشہ کے لیے  محرم بن جاتے ہیں، یعنی مرد کے لیے ساس اورعورت کے لیے سسر ہمیشہ کے لیے  محرم بن جاتے هيں، اگر چہ  بعد میں میاں بیوی کا رشتہ ازدواجیت کسی وجہ سے ختم  ہی  کیوں نہ ہوجائے، لہٰذا مذکورہ طلاق یافتہ خاتون کا اپنے سابقہ شوہر کے والد  سے  پردہ کرنا ضرور ی نہیں ہے، اسی طرح مرد کا اپنی سابقہ بیوی کی ماں سے پردہ کرنا بھی ضروری نہیں ہے، نیز خاتون  کے سابقہ سسرکا بطورِ محرم  اس کے ساتھ حج کا سفر کرنا بھی درست ہے، بشرط یہ کہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، یعنی دونوں کا باہم کسی گناہ میں پڑنے کا خطرہ  نہ ہو۔

النتف فی الفتاویٰ میں ہے:

"‌‌ما يحرم بالصهرية: وأما الصهر فهم أربعة اصناف: أحدهم ‌ابو ‌الزوج والجدود من قبل ابويه وان علوا يحرمون على المرأة وتحرم هي عليهم دخل بها أو لم يدخل بها لقوله تعالى {وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم}."

(كتاب النكاح، ما يحرم بالصهرية، ج:1، ص:254، ط:مؤسسة الرسالة)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) مع (زوج أو محرم) ولو عبدا أو ذميا أو برضاع.

(قوله ومع زوج أو محرم) هذا وقوله ومع عدم عدة عليها شرطان مختصان بالمرأة،  فلذا قال لامرأة وما قبلهما من الشروط مشترك،  والمحرم من لا يجوز له مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو صهرية كما في التحفة."

(كتاب الحج، ج:2، ص:464، ط:ايچ ايم سعيد) 

 فتح القدیر میں ہے:

"ولها أن تخرج مع كل محرم سواء كان بنسب أو رضاع أو صهرية مسلما أو كافرا أو عبدا إلا أن يعتقد حل مناكحتها كالمجوسي أويكون فاسقا إذ لا تؤمن معه ‌الفتنة أو صبيا."

(كتاب الحج، ج:2، ص:422، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں