بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مُردے کی روح کو ان کے عزیز و اقارب کے حالات سے آگاہی ملتی ہے؟


سوال

1۔ کیا جو لوگ فوت ہو جاتے ہیں ،ان کو پتہ چلتا ہے کہ ان کے ماں باپ یا بیوی دنیا میں کیا کر رہے ہیں؟ اور یہ کہ ان کو کتنا زیادہ یاد کرتے ہیں؟

2۔ ایک بیوہ اپنے شوہر سے بےپناہ محبت کی وجہ سے دوسری شادی نہ کرے ،تو کیا اللّٰہ تعالیٰ اس کو اجر دیں گے؟ اور کیا اس کے فوت شدہ شوہر کو پتہ چلے گا کہ اس کی بیوی ان کی محبت میں ساری زندگی بیوہ رہی ؟ اور ان کی واحد اولاد کی پرورش میں گزار دی؟

جواب

1۔ مردوں کی روح کو اس کے زندہ عزیز واقارب کے اعمال وحالات سےجب اللہ تعالٰی چاہیں، تو   آگاہی ملتی ہے، اگر مرحوم کے عزیزواقارب کے نیک اعمال ہیں تو اس سے مردے کی روح خوش ہوتی ہے، اور اگر  بُرے اعمال ہیں تو مردے کی روح جب اللہ  تعالی چاہیں کو رنج پہنچتا ہے ،اور وہ افسردہ ہوتی ہے،لہذا محض یاد نہ کیا جائے بلکہ اچھے اعمال کر کے مرحوم کی روح کو راحت پہنچائی جائے۔

2۔صورتِ  مسئولہ میں دنیا میں شوہر  کے ساتھ محبت اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،لہذا شوہر کے مرنےکے بعد شوہرکے بچوں کی پرورش کرنا اور اس کی خاطر دوسری جگہ شادی نہ کرنا بیوہ کے لیےباعث ثواب ہوگا ،بشرط یہ کہ دوسری شادی کے بغیرعفت کے ساتھ زندگی گزار سکے ۔

مسند احمد  میں ہے:

"حدثنا عبد الرزاق حدثنا سفيان عمن سمع أنس بن مالك يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم إن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم من الأموات فإن كان خيرا استبشروا به وإن كان غير ذلك قالوا: اللهم لا تمتهم حتى تهديهم كما هديتنا."

ترجمہ:

ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، وہ ایک شخص کی سند سے جس نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اعمال مردہ میں سے تمہارے رشتہ داروں اور قبیلوں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں،اگر یہ اچھےہوں تو وہ اس پر خوش ہوتے ہیں، اور اگر  اچھے نہ ہوں تو کہتے ہیں: اے اللہ ان کو اس وقت تک  موت نہ دینا جب تک کہ تو ان کی رہنمائی نہ کرے جیسا کہ تو نے ہماری رہنمائی کی ہے۔

(مسند عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما، حديث أبي رمثة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم، ج:20 ص:114 ط: مؤسسة الرسالة)

سنن أبي داود  میں ہے:

"حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا النهاس بن قهم، حدثني شداد: أبو عمارعن عوف بن مالك الأشجعى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌أنا ‌وامرأة ‌سفعاء ‌الخدين كهاتين يوم القيامة" وأومأ يزيد بالوسطى والسبابة: "امرأة آمت من زوجها ذات منصب وجمال، حبست نفسها على يتاماها حتى بانوا أو ماتوا."

ترجمہ:

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زرع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے نحاس بن قہم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شداد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو عمار نے عوف بن مالک اشجعی کی سند سے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اور ایک بدنماخدین والی عورت(یعنی بیوگی کی وجہ سے مرجھائے ہوئے چہرےوالی)  قیامت کے دن ایسے ہی ہوں گے،اور یزید نے اپنی درمیانی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا: کہ وہ  شوہر والی عورت  جوبے شوہر ہوگئی خوب صورت اور باحیثیت ،جس نے اپنے آپ کوروکے رکھا اپنے یتیموں کے دیکھ بھال ،خدمت اور پرورش کے لیے یہاں تک کہ وہ پیدا ہو گئے یا مر گئے۔(الدرالمنضود،ج:6 ص:619 ط:مکتبۃالشیخ)

(أول كتاب الأدب، باب في فضل من عال يتيما، ج:7 ص:760 ط: دار الرسالة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال(317): مرنے والے کو مرنے کے بعد اپنے ماں باپ سے کوئی تعلق رہتا ہے؟

الجواب حامدومصلیاً: رہتا ہے، اس طرح کہ میت کو ان کے اعمال کی اطلاع دی جاتی ہے، اگر اچھے اعمال ہیں  تو میت کی روح کو خوشی ہوتی ہے، اگر بُرے اعمال ہیں تو رنج ہوتا ہے، اور وہ رُوح ان کی اصلاح کی دعا کرتی ہے، اور یہ تعلق ماں باپ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع اقربا اور متعارفین سے رہتا ہے۔"

(باب ما یتعلق باحوال القبور  والارواح، ج:1  ص: 611 ،612  ط: مکتبہ الفاروق کراچی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں