بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مقتدی کے امام سے ناراض ہونے کی صورت میں مقتدی کی نماز درست ہوگی؟ اور کن صورتوں میں امام کی اقتداء درست نہیں؟


سوال

1: اگر کوئی مقتدی کسی وجہ سے امام ِمسجد سے اختلاف رکھتا ہو تو کیا  اس مقتدی کی امام کے پیچھے نماز ادا نہیں ہوگی ؟ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر آپ کا امام صاحب سے کوئی اختلاف ہے تو آپ کی نماز نہیں ہوگی ؟ یہ بات کس  حد تک درست ہے؟

2:نیز وہ وجوہات بھی بیان فرما دیں جن کی وجہ سے کوئی مقتدی امام کے پیچھے نماز ادا نہیں کرسکتا ؟ آپ سے درخواست ہے کہ  وہ تمام وجوہات تفصیلی طور پر بیان فرما دیں۔

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں اگر مقتدی  کی  امام سے ناراضگی کسی دینی وجہ سے ہو، یعنی امام فاسق و فاجر  ہو یا لاپرواہ  ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا وہ سنتوں  کی رعایت نہ کرتا ہو    اور مقتدی اس وجہ سے اس سے ناراض ہو تو ایسی ناراضگی کا اعتبار ہے  اور  ایسے امام کی امامت مکروہ ہوگی،لیکن اگر کسی نے اس امام کی اقتداء میں نماز پڑھ لی تو نماز بہر حال ادا ہوجاۓ گی،لوٹانے کی ضرورت نہیں،البتہ ایسی صورت میں ایک نیک صالح و متقی امام کے کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے جو ثواب ملتا ہے اس سے محروم رہے گا ، اور اگر  مقتدی کی امام سے ناراضگی کسی دنیاوی امر  یادشمنی یا مخالفت کی وجہ سے ہو  بایں طور کہ اس میں نفس کو دخل ہو تو  ایسی ناراضگی کا  کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے،  بلکہ اس صورت میں مقتدی  امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کا مستحق اور گناہ گار ہے، تاہم بہردو صورت  ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے نمازیں ادا کرنے سے نمازدرست ہوجاۓ گی  اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا،لہٰذا یہ اعتقاد رکھنا  کہ "امام سے ناراضگی کی صورت میں نماز بالکل ادا نہیں ہوتی" شرعاً درست نہیں ۔

2:ایسی وجوہات بہت زیادہ ہیں جن کی وجہ سے امام کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں نماز نہیں ہوتی،ان تمام صورتوں کا بیان مشکل ہے۔آپ کو  خاص جس صورت کے بارے میں معلوم کرنا ہے ،وہ لکھ کر دریافت کرلیجیے۔

فیض القدیر میں ہے:

"وإمام قوم ‌وهم ‌له ‌كارهون) فإن للإمام شفاعة ولا يستشفع المرء إلا بمن يحبه ويعتقد منزلته عند المشفوع إليه فيكره أن يؤم قوما يكرهه أكثرهم وهذا إن كرهوه لمعنى يذم به شرعا وإلا فلا كراهة واللوم على كارهه......(رجل أم قوما ‌وهم ‌له ‌كارهون) أي أكثرهم لما يذم شرعا كفسق وبدعة وتساهل في تحرز عن خبث وإخلال بهيئة من هيئات الصلاة وتعاطي حرفة مذمومة وعشرة نحو فسقة."

(حرف الثاء،324/3، ط:المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة."

"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى:﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾[الأنعام: 37]."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:3، ص:84،85، ط:مكتبة إمدادية - ملتان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں