میں ایک بین الاقوامی کمپنی میں 17 سال سے زائد عرصے تک بطور چیف فینا نشل آفیسر خدمات انجام دیتا رہا ہوں، میں نے کمپنی کے ساتھ انتہائی دیانت داری، اخلاص اور محنت سے کام کیا اور اپنی زندگی کے بہترین سال اس ادارے کو دیے ،17 سال گزارنے کے بعد اور اس 54 سال کی عمر میں میرے لیے اس سطح کی نوکری اور تنخواہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے، میں اپنی زندگی کے لیے کام کے حوالے سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا، مورخہ 6 مارچ 2025 کو مجھے کمپنی کی طرف سے ایک نوٹس موصول ہوا، جس میں مجھ سے کہا گیا کہ میں یا تو استعفیٰ دے دوں یا کمپنی مجھے ایک ماہ کے نوٹس پر فارغ کر دے گی، اگرچہ میرے معاہدے میں یہ شق موجود ہے کہ کمپنی کسی بھی وقت ایک ماہ کا نوٹس دے کر ملازمت ختم کر سکتی ہے، اور قانونی واجبات ادا کرے گی، لیکن کمپنی کے سابقہ پالیسی اور طرز عمل میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ ایسے حالات میں بعض ملازمین کو کمپنی پریکٹس کے تحت اضافی مالی معاوضہ بھی دیا جاتا رہا ہے، خاص طور پر ان افراد کو جنہوں نے طویل اور وفادرانہ خدما خدمات سرانجام دی ہوں، مجھے نا صرف بغیر کسی قصور کے فارغ کر دیا گیا، بلکہ تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے میں بے روزگار ہوں، اور میرے لیے مالی لحاظ سے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، میری عمر اب 54 سال ہے ،اور اس مرحلے پر نئی ملازمت کا حصول نہایت مشکل ہو چکا ہے، میں اب کمپنی کے خلاف عدالت میں قانونی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہوں، تاکہ مجھے وہ معاوضہ ملے جو انصاف، سابقہ کمپنی پریکٹس اور میرے طویل عرصے کی خدمت کے لحاظ سے میرا حق بنتا ہے ،اگرچہ یہ صراحتاً میرے معاہدے میں نہیں تھا۔
1۔کیا اب شریعت مطہرہ کے مطابق میرے لیے کمپنی کے خلاف عدالت میں جانا اور مالی معاوضے کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟
2۔کیا کمپنی کا اس طرح ایک طویل عرصے کے مخلص ملازم کو فارغ کر دینا اور اس کے ساتھ سابقہ پریکٹس کے برخلاف کوئی معاوضہ نہ دینا شرعی طور پر درست ہے؟
3۔اگر کمپنی ماضی میں ایسے معاملات میں دیگر ملازمین کو اضافی مالی تعاون یا دیتی رہی ہو تو کیا میرے لیے اس کا مطالبہ شرعاً مباح ہے؟
4۔اگر عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں مجھے کوئی مالی رقم حاصل ہو تو کیا وہ رقم میرے لیے شرعی لحاظ سے حلال و طیب ہوگی کیا اس کا استعمال میرے لیے جائز ہوگا؟
1۔صورتِ مسئولہ میں کمپنی کی جانب سے حسب ضابطہ ایک ماہ قبل مطلع کر کے ملازم کو فارغ کرنے کی وجہ سے مالی معاوضے کے حصول کے لیے عدالت جانا، اور کمپنی سے مالی معاوضے کا مطالبہ کرنا ازروۓ شرع جائز نہیں؛ کیوں کہ ملازمت سے برخاست کرتے ہوئے ملازم کو اس کی خدمات کے اعتراف میں کچھ دینا تبرع اور احسان کے قبیل سے ہے، ازروئے شرع لازم نہیں، لہذا مالی تعاون کرنا کمپنی کی صواب دید پر موقوف ہوگا،لہذا سائل کمپنی سے درخواست کر سکتا ہے، لیکن بذریعۂ عدالت مجبور کرنے کا اسے شرعا ًحق نہیں ۔
2۔چوں کہ معاہدہ میں یہ بات موجود تھی کہ ایک ماہ کا پیشگی نوٹس دے کر کمپنی ملازم کو فارغ کر سکتی ہے، لہذاکمپنی کا سائل کو ملازمت سے فارغ کر دینا خلافِ معاہدہ نہ ہوگااور کمپنی پر مالی معاوضہ دینا لازم نہیں۔
3۔سائل کمپنی سے مالی تعاون کا مطالبہ نہیں کر سکتا، البتہ دیگر افراد کے ساتھ ہونے والے معاملے کی بنیاد پر درخواست کر سکتا ہے ،بہر صورت مالی تعاون کرنا کمپنی کی صواب دیدپر ہے۔
4۔اگر سائل نے عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں کمپنی سے ان کی رضامندی کے بغیر زبردستی کوئی مالی معاونت حاصل کر لی تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہو گا۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"لا جبر في التبرع ."
(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، ج:5،ص: 158، ط:سعید)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
" أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز وأما ركنها فقول الواهب: وهبت؛ لأنه تمليك وإنما يتم بالمالك وحده، والقبول شرط ثبوت الملك للموهوب له حتى لو حلف أن لا يهب فوهب ولم يقبل الآخر حنث، كذا في محيط السرخسي."
( كتاب الهبة، الباب الأول في تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، ج:4، ص:374، ط: دار الفكر)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
" (المادة ٥٧: لا يتم التبرع إلا بقبض)
لا يتم التبرع إلا بقبض هذه القاعدة مأخوذة من الحديث الشريف القائل (لا تجوز الهبة إلا مقبوضة) على أنه لو كانت الهبة تتم بدون القبض لأصبح الواهب حينئذ مجبرا على أداء شيء ليس بمجبر على أدائه، وذلك مخالف لروح التبرع فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج:1، ص:57، ط: دار الجيل )
فتاوٰی شامی میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(کتاب الحدود، باب التعزیر، ج:4، ص: 61، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100233
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن